بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس عورت سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائے اس کی بڑی چھوٹی تمام اولاد بھی حرام ہوجاتی ہے / رضاعی بھانجی سے نکاح کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ  میں نے دادی کا دودھ پیا ہے، تو اب  کیا میرا رشتہ پھپھو  کی بیٹی  کے ساتھ ہو سکتا ہے یا  نہیں ؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے  کہ  رشتہ باپ کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا  ہو سکتا ہے،  اور کچھ کا  کہنا ہے کہ   جس بچے کے ساتھ آپ نے دادی کا دودھ  پیاوہ اور اس سے چھوٹے آپ کی دادی کے جتنے بچے ہوں، تو وہی آپ کے  بہن بھائی ہوں گے اس سے بڑے نہیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مدت رضاعت (ڈھائی سال یعنی 2سال 6 ماہ) کے اندر اپنی دادی کا دودھ پیا ہے، تو دادی کی تمام بڑی اور چھوٹی اولاد سائل کے رضاعی بھائی بہن بن گئے، اور اُن کی اولاد سائل کے لیے رضاعی  بھانجے بھتیجے بن گئے، عمر میں بڑے یا چھوٹے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، حرمتِ رضاعت سب کے حق میں ثابت ہوجاتی ہے۔

اور جس طرح حقیقی ماموں اور بھانجی کا نکاح شرعاجائز نہیں،  اسی طرح رضاعی ماموں اور بھانجی کا نکاح بھی شرعاجائز نہیں ہے،لہٰذا سائل  کا مذکورہ پھوپھی کی بیٹی (جو کہ سائل کی رضاعی بھانجی ہے) کے ساتھ نکاح شرعادرست نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالأصل أن كل من يحرم بسبب القرابة من الفرق السبع الذين ذكرهم الله عز وجل في كتابه الكريم نصا أو دلالة على ما ذكرنا في كتاب النكاح؛ يحرم بسبب الرضاعة إلا أن الحرمة في جانب المرضعة متفق عليها، وفي جانب زوج المرضعة مختلف فيها.

أما تفسير الحرمة في جانب المرضعة فهو أن المرضعة تحرم على المرضع؛ لأنها صارت أما له بالرضاع فتحرم عليه لقوله عز وجل {وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم} معطوفا على قوله تعالى {حرمت عليكم أمهاتكم وبناتكم} فسمى سبحانه وتعالى المرضعة أم المرضع وحرمها عليه، وكذا بناتها يحرمن عليه سواء كن من صاحب اللبن أو من غير صاحب اللبن، من تقدم منهن ومن تأخر؛ لأنهن أخواته من الرضاعة وقد قال الله عز وجل {وأخواتكم من الرضاعة} أثبت الله تعالى الأخوة بين بنات المرضعة وبين المرضع والحرمة بينهما مطلقا من غير فصل بين أخت وأخت، وكذا بنات بناتها وبنات أبنائها وإن سفلن؛ لأنهن بنات أخ المرضع وأخته من الرضاعة، وهن يحرمن من النسب كذا من الرضاعة."

(كتاب الرضاع، ‌‌فصل في المحرمات بالرضاع، ٤/ ٢، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية ... ووقت الرضاع في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - مقدر بثلاثين شهرا وقالا مقدر بحولين هكذا في فتاوى قاضي خان ... يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة." 

(كتاب الرضاع، ١/ ٣٤٣، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسبا، ومصاهرة (رضاعا) إلا ما استثني في بابه.

وقال عليه في الرد: (قوله: نسبا) تمييز عن نسبة تحريم للضمير المضاف إليه، وكذا قوله: مصاهرة، وقوله: رضاعا تمييز عن نسبة تحريم إلى الكل، يعني يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه، وقوله: إلا ما استثنى أي استثناء منقطعا، وهو تسع صور تصل بالبسط إلى مائة وثمانية كما سنحققه ح."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ٣/ ٣١، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں