بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جرگے کے پاس ضمانت کے طور پر رکھوائی گئی رقم کا حکم


سوال

 جرگہ کرنے والوں کے لیے طرفین سے رکھوائی گئی رقم کو استعمال کرنا کیسا ہے، اس طور پر کہ طرفین سے اگر کوئی شخص جرگہ کے کیے گئے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردے یا فیصلہ سے پہلے ہی جرگہ سے راہِ فرار اختیار کرلے تو عرفًا ایسے شخص کی رکھوائی گئی رقم جرگہ کے شرکاء آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے علاقے جاپان چھیباکین میں پیش آیا ہے۔ طرفین نے برضا و خوشی جرگے کے لیے لوگ منتخب کیے اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے اختیارات ان کے حوالے کیے اور ضمانت کے طور پر طرفین نے رقم جمع کروا دی یا رقم کا شخصی ضامن طے کرلیا۔ اب نصف سال بعد جب جرگہ کسی حتمی فیصلہ کو پہنچا تو طرفین میں  سے ایک نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اب ثقافتی اور عرفی طریقہ تو یہی ہے کہ اس شخص کی رقم جرگہ والے اپنے استعمال میں لے آئیں یا جو مناسب ہو کریں وہ اس میں حق بجانب ہیں، مگر شریعت اس معاملہ میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟ براہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا جواب مرحمت فرمادیں!

جواب

واضح رہے کہ جرگہ کرنے والوں کو طرفین کی طرف سے جو رقم ضمانت کے طور پر رکھوائی جاتی ہے، یہ ان کے پاس شرعاً امانت ہوتی ہے، جس کا لوٹانا ان پر واجب ہے، اور اس کا استعمال کرنا شرعاً ان کے لیے جائز و حلال نہیں، چاہے فریقین میں سے کوئی ایک فیصلہ کا انکار کرے یا اقرار؛ لہٰذاصورتِ مسئولہ میں جب طرفین نے جرگے کے لوگوں کے پاس ضمانت کے طور پر رقم جمع کروائی تھی، اور اب نصف سال بعد ایک فریق جرگے کا فیصلہ  ماننے سے انکار کرتا ہے، تو اگر جرگے کا فیصلہ شرعاً درست ہے تو دونوں فریقین کو  اسے تسلیم کر لینا چاہیے، اور کسی ایک فریق کے نہ ماننے کی وجہ سے اس کا   پیسہ روک کر اس کو فیصلہ ماننے پر مجبور تو کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ رقم جرگے والوں کے پاس امانۃً ہی رہے گی، اور ان کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز نہ ہوگا، بلکہ واپس لوٹانا بہر حال ضروری ہوگا۔

الدر المختار  (5 / 667):

"(و) منها (قاض مات مجهلا لأموال اليتامى) زاد في الأشباه عند من أودعها، ولا بد منه لأنه لو وضعها في بيته، ومات مجهلا ضمن لأنه مودع."

وفي حاشية ابن عابدين (رد المحتار) تحته:

"(قوله: ومنها قاض) لو قال القاضي في حياته: ضاع مال اليتيم عندي أو قال: أنفقتها على اليتيم لا ضمان عليه ولو مات قبل أن يقول شيئًا كان ضامنًا، خانية في الوقف، كذا في الهامش (قوله: ضمن) لعل وجه الضمان كونها لا تتخطى الورثة فالغرم بالغنم، ويظهر من هذا أن الوصي إذا وضع مال اليتيم في بيته ومات مجهلا يضمن لأن ولايته قد تكون مستمدة من القاضي أو الأب فضمانه بالأولى، وفي الخيرية، وفي الوصي قول بالضمان سائحاني."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 207):

"أَمَّا) رُكْنُهُ: فَهُوَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ، وَهُوَ: أَنْ يَقُولَ لِغَيْرِهِ: أَوْدَعْتُكَ هَذَا الشَّيْءَ، أَوْ احْفَظْ هَذَا الشَّيْءَ لِي، أَوْ خُذْ هَذَا الشَّيْءَ وَدِيعَةً عِنْدَكَ، وَمَا يَجْرِي مَجْرَاهُ، وَيَقْبَلُهُ الْآخَرُ، فَإِذَا وُجِدَ ذَلِكَ؛ فَقَدْ تَمَّ عَقْدُ الْوَدِيعَةِ."

الفتاوى الهندية (4 / 338):

"وَأَمَّا رُكْنُهَا فَقَوْلُ الْمُودِعِ: أَوْدَعْتُكَ هَذَا الْمَالَ، أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَهُ مِنْ الْأَقْوَالِ أَوْ الْأَفْعَالِ وَالْقَبُولُ مِنْ الْمُودَعِ بِالْقَوْلِ وَالْفِعْلِ أَوْ بِالْفِعْلِ فَقَطْ، هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ. الْوَدِيعَةُ تَارَةً تَكُونُ بِصَرِيحِ الْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ وَتَارَةً بِالدَّلَالَةِ، فَالصَّرِيحُ قَوْلُهُ: أَوْدَعْتُكَ، وَقَوْلُ الْآخَرِ: قَبِلْتُ، وَلَا تَتِمُّ فِي حَقِّ الْحِفْظِ إلَّا بِذَلِكَ وَتَتِمُّ بِالْإِيجَابِ وَحْدَهُ فِي حَقِّ الْأَمَانَةِ حَتَّى لَوْ قَالَ لِلْغَاصِبِ: أَوْدَعْتُكَ الْمَغْصُوبَ، بَرِئَ عَنْ الضَّمَانِ وَإِنْ لَمْ يَقْبَلْ، فَأَمَّا وُجُوبُ الْحِفْظِ فَيَلْزَمُ عَلَى الْمُودَعِ فَلَا بُدَّ مِنْ قَبُولِهِ، وَالدَّلَالَةُ إذَا وَضَعَ عِنْدَهُ مَتَاعًا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، أَوْ قَالَ: هَذَا وَدِيعَةٌ عِنْدَكَ، وَسَكَتَ الْآخَرُ صَارَ مُودَعًا حَتَّى لَوْ غَابَ الْآخَرُ فَضَاعَ ضَمِنَ؛ لِأَنَّهُ إيدَاعٌ وَقَبُولٌ عُرْفًا، كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں