بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جرگہ کے سامنے دو طلاقوں کا اقرار کرنے سے دو رجعی طلاقوں کا وقوع، اور بچوں کی پرورش کا حکم


سوال

کچھ دن قبل میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا، جس کے بعد بیوی اپنے میکے آگئی، اس کے بعد پتا چلا کہ شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی ہے، کچھ آدمیوں نے مل کر شوہر کو بلایا، اور اس سے پوچھا کہ آپ نے طلاق دے دی ہے؟ تو اس نے تقریباً پندرہ بندوں کے جرگہ کے سامنے یہ اقرار کیا (اور جرگہ کے یہ شرکاء اس پر گواہی دینے کو بھی تیار ہیں)کہ اس نے دو مرتبہ یہ الفاظ کہے ہیں:طلاق ہے،  طلاق ہے۔

اس کے بعد وہ کمرہ سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی دیر کے بعد آکر بیوی سے کہاکہ:میں نے تجھے فارغ کردیا ہے تم گھر چلی جاؤ۔

اور اس آخری جملہ کے بارے میں شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے یہ جملہ طلاق کےلیے نہیں بولا، بلکہ اسے گھر بھیجنے کےلیے بولا ہے۔

نیز شوہر اب یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے طلاق بھی ایک دی ہے، اور جرگہ کے سامنے اقرار بھی ایک بار ہی کیا ہے۔

(۱) اب ساری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ اور کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟

(۲) نیز ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، بچوں کی عمریں حسب ذیل ہیں:بیٹیوں کی عمر یں 12 سال ،10 سال اور 7 سال ہیں، جب کہ بیٹے کی عمر 5 سال ہے، اس سلسلے میں بھی راہ نمائی فرمادیجیے کہ بچوں کی پرورش کا حق کس کا ہوگا؟ اور کب تک ہوگا؟

جواب

(۱) صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اگر واقعی جرگہ کے سامنے دو طلاقوں کا اقرار کیا ہے، اور اس پر تقریباً پندرہ افراد گواہی بھی دیتے ہیں تو اس کی بیوی پر دو طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہیں، اور اس شخص کو عورت کی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ جننے تک کا وقت) گزرنے سے پہلے پہلے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔

اور رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں زبان سے یہ کہہ دے کہ ”میں نے رجوع کیا“ تو رجوع ہوجائے گا، اور سابقہ نکاح ہی بحال رہے  گا، دوبارہ نئے سرے سے نکاح کی ضرورت نہیں، اور مزید صرف ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

یہ جواب سوال میں مذکورہ صورت کے اعتبار سے ہے، تاہم اس کے بعد بھی اگر فریقین کے بیانات میں تضاد ہو تو کسی قریبی مستند دار الافتاء یا کسی مستند مفتی صاحب کے پاس جاکر شرعی تحکیم کے ذریعے فیصلہ کروالیا جائے۔

(۲) اگر شوہر رجوع کرلیتا ہے پھر تو بچے دونوں کے ساتھ ہی ہوں گے، لیکن اگر وہ رجوع نہیں کرتا،تو بیٹا سات سال کی عمر تک والدہ کے پاس رہے گا، اس کے بعد والد کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی پرورش کا انتظام کرے، اور بیٹیاں نو سال ہونے تک والدہ کے پاس رہیں گی، اور اس کے بعد پرورش کا حق اور ذمہ داری والد کی ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة. اهـ. ويأتي تمامه."

(كتاب الطلاق، قبيل المطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه، 3/ 236، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء."

)کتاب الطلاق، باب فی إیقاع الطلاق، 1/ 390، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.

(قوله: ولو جبرا) أي إن لم يأخذه بعد الاستغناء أجبر عليه كما في الملتقى.

وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية. اهـ.

قلت: بقي ما إذا انتهت الحضانة ولم يوجد له عصبة ولا وصي فالظاهر أنه يترك عند الحاضنة، إلا أن يرى القاضي غيرها أولى له، والله أعلم."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، 3/ 566، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة وفيما تحل به المطلقة، 1/ 502، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

وفيه أيضا:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة وفيما تحل به المطلقة، 1/ 504، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602101523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں