ہمارا کچھ رشتہ داروں سے زمین کے معاملے میں اختلاف ہے۔ان کادعوی ہے کہ زمین ان کی ہے، جب کہ ہمارا دعوی ہےکہ یہ ہماری ملکیت ہے ، ہم نے انہیں شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں آیا تو ہم زمین چھوڑ دیں گے ، اور اگر ہمارے حق میں آیا تو وہ ستبردار ہو جائیں۔ لیکن وہ شریعت کی روشنی میں فیصلہ کرانے سے گریز کر رہے ہیں اور تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں، جب کہ غیرشرعی ذرائع جیسے جرگہ وغیرہ کے ذریعے فیصلہ کرانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ میں جرگہ کے ذریعے فیصلہ کرانے کے حق میں نہیں ہوں؛ کیوں کہ اکثر یہ فیصلے شریعت کے مطابق نہیں ہوتے اور ان میں رشوت اور جانبداری کا اندیشہ ہوتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ :
1۔ایسے حضرات جو شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے سے گریز کرتے ہیں یا تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں اور غیر شرعی ذرائع کی طرف رجوع کرتے ہیں ، ان کے بارے میں شریعت کی کا کیا حکم اور کیا وعید آئی ہے؟
2۔کیا ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ ہم اہل علم مفتیان کرام کے ذریعے اس معاملے کا فیصلہ کروائیں ، یا جرگہ جیسےغیر شرعی نظام کو قبول کرلیں؟
واضح رہے كہ شريعتِ مطہره ميں ہر مستحق كو حق عطا كرنا مقصود اور مطلوب ہے،نیز شریعت نے حق دار کو حق وصول کرنے کے لیے جائز راستوں کو اختیار کرنے کاحکم دیا ہے،اور فریقین کو اختیار دیا ہے کہ وہ رضامندی کے ساتھ کسی بھی جائز طریقے پر فیصلہ کرائیں،چاہے وہ قاضی کے ذریعہ ہویا،کسی جرگہ یاپنچائیت کے ذریعہ ہو۔البتہ شرعی تقاضوں کو پیش نظر رکھنا بہر صورت ضروری ہے۔ چنانچہ جرگہ فریقین کے باہمی نزاع کو ختم کرنے کاایک جائز طریقہ ہے، جس میں فریقین باہمی رضامندی کے ساتھ تیسرے شخص کو ثالث یا حکم مقرر کرتے ہیں جو ان کے درمیان شرعی اصولوں کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ؛لہذا سائل کا جرگہ کومحض رشوت اور جانبداری کے اندیشہ کی بنا پر مطلقاً غیر شرعی طریقہ قراردینادرست نہیں۔ البتہ جرگہ میں ماہر تجربہ کار عالم دین کا ہونا ضروری ہے؛ تاکہ شرعی اصول وقواعد کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ جب فریق مخالف جرگہ کے ذریعے فیصلہ کرانے پر رضامند ہے،تو اسی طریقہ پر مذکورہ معاملہ کا تصفیہ کرایا جائے ۔البتہ اگرسائل کو جرگہ کی جانب سے ناانصافی کا یقین ہو توپھر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
فتاوي ہنديہ ميں ہے:
"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح"
(كتاب ادب القاضی،الباب الرابع والعشرون في التحكيم، ج:3، ص:397، ط دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101292
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن