بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جنسی بیماری کی وجہ سے اولاد نہ ہونے کی صورت میاں بیوی کے لیے حکم


سوال

دو سال پہلے 23اگست 2019 کو میری شادی ہوئی ،شوہر کے ساتھ، میاں ،بیوی والا  تعلق قائم ہوتا رہا، لیکن  حمل نہیں ٹہرا ،ہم دونوں کو بچوں کی شدید خواہش تھی، جب ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ شوہر میں تولیدی جراثیم نہ ہونے کی وجہ سے   یہ باپ نہیں بن سکتے ۔

دوسری طرف میری ساس مجھے بہت زیادہ اذیت دیتی تھی اور تمام گھر والوں کے ساتھ بہت مشکل وقت گزار رہی تھی ،سخت اذیت کےباوجود  میری یہی کوشش تھی کہ میں اپنے گھر والوں کو  نہ بتاؤں اور سکون سے شوہر کے گھر میں رہوں، لیکن میرے گھر والوں کو یہ بات معلوم ہوگئی، جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا ہوگیا۔

اب میں بہت پریشان ہوں کہ کیا کروں اس کا کیا حل ہوگا ،آپ ہی  مجھے کوئی حل بتائیں؛ کیوں کہ میں ان اذیتوں اور  ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے بہت بیمار رہنے لگی ہوں،  کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی آپ ہی کوئی راہ دکھائیے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا    شوہر  نکاح کے بعد چوں کہ بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرچکا ہے، اس لیے محض اولاد نہ ہونے کی بنا   پر سائلہ کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار  حاصل نہیں ہے، نیز  اولاد اللہ تعالیٰ کے نعمت ہے، اور اللہ جل شانہ اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت اس کی تقسیم فرماتے ہیں، جس کو چاہیں لڑکے دیں، جسے چاہیں لڑکیاں اور جسے چاہیں دونوں دیں، او ر جسے چاہیں بانجھ رکھیں ، بسا اوقات میاں بیوی بظاہر دونوں صحت مند ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود  بھی ان کی اولاد نہیں ہوتی، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی دونوں یا ان میں سے ایک بانجھ ہو  لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں اولاد  کی نعمت سے نواز دیتے ہیں،  جیسا کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑھاپے میں بانجھ بیوی سے اولاد کی نعمت سے نوازا،  قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اس واقعہ کو  نقل فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا (2) إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا (3) قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا (4) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (6) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا (7) قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا (8) قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا}" [مريم: 2 - 9]         

ترجمہ:  ”یہ تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی کا اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر، جب کہ انہوں نے اپنے پروردگار کو پوشیدہ طور پر پکارا، جس میں یہ عرض کیا کہ: اے میرے پروردگار!  میری ہڈیاں (بوجہ پیری کے) کمزور ہوگئیں اور سر میں بالوں کی سفیدی پھیل گئی اور ( اس سے قبل کبھی میں) آپ کے مانگنے میں اے میرے رب ناکام نہیں رہا ہوں، اور میں اپنے بعد (اپنے) رشتہ داروں (کی طرف) سے اندیشہ رکھتا ہوں اور میری بی بی  بانجھ ہے (سو اس صورت میں) آپ مجھ کو خاص اپنے پاس سے ایک ایسا وارث (یعنی بیٹا) دے دیجیے  کہ وہ (میرے علوم خاصہ میں) میرا وارث بنے،  اور ( میرے جد) یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کا وارث بنے  اور اس کو اے میرے رب (اپنا) پسندیدہ بنائیے۔

اے زکریا (علیہ السلام)!  ہم تم کو ایک فرزند کی خوشخبری دیتے ہیں،  جس کا نام” یحییٰ“  ہوگا کہ اس کے پہلے  ہم نے کسی کو اس کا ہم صفت نہ بنایا ہوگا، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میری اولاد کس طور پر ہوگی؟   حالاں  کہ میری بی بی بانجھ ہے اور (ادھر) میں بڑھاپے کے انتہائی درجے کو پہنچ چکا ہوں۔ا رشاد ہوا:  حالت (موجودہ) یونہی رہے گی (اور پھر اولاد ہوگی اے زکریا (علیہ السلام) تمہارے رب کا قول ہے کہ یہ (امر) مجھ کو آسان ہے اور میں نے تم کو پیدا کیا،  حالاں کہ تم (پیدائش سے  قبل) کچھ بھی نہ تھے۔“

(از بیان القرآن )

لہذا اولاد کے معاملہ میں   اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیے،  اسی ذات کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اولاد کے حصول کے لیے جائز تدابیر اختیار کرکے صدقِ دل سے دعائیں کرتے رہیے، جو رب  بڑھاپے میں حضرت زکریا علیہ السلام کو بانجھ بیوی سے بچہ دے سکتا ہے، وہ کسی کو بھی اولاد دے سکتا ہے۔

باقی    سائلہ کو  چاہیے کہ  وہ اپنی ساس کو والدہ کی مانند سمجھے، اور ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھ کر اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا، لیکن اگر مسلسل خدمت  اور اطاعت کے باوجود   سائلہ   اپنی ساس کے رویہ سے کی وجہ سے پریشان ہو اور رہائش مشترکہ ہو تو    چوں کہ  شوہر کے ذمہ بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کا انتظام  لازم ہے، اس لیے شوہر اس کو ایسی رہائش کا انتظام کردے جس میں  شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو، اور اس میں  باتھ روم اور کچن  الگ  ہو، یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو یہ صورت اختیار کرليني چاهيے۔خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی مل کر  باہم  اس مسئلہ کو حکمت اور بصیرت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحياناولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانا، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة وسبع لأمة. ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا."

 (3 / 202، كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144303100684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں