بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنات کا مقفل دروازہ کھولنے یا رقم چوری کرنے کی حقیقت کا ثبوت


سوال

کیا جنات مقفل دروازہ وغیرہ کھول سکتے ہیں؟ اسی طرح کسی چیز یا رقم کو چوری کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جنّات بھی  اللہ  رب العزت کی مخلوق ہے،جسے  جسم لطیف دیاگیا ہے، اور انسانی آزمائش کے  لیے یہ غیرمعمولی قدرت دے رکھی ہے کہ وہ  بعض تصرفات  کرکے انسانی زندگی پر اثر اندازہوسکتے ہیں،  جس کا قرآن وحدیث اور کتبِ تاریخ سے واضح ثبوت ملتا ہے،چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نےجنات کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیا تھاتو وہ ان کے ذریعے بہت سے محیر العقول کام کروایا کرتے تھے،قرآن مجید سورہ سبا میں ہے:"وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ."(ترجمہ از بیان القرآن:اور جنات میں سے بعضے وہ تھےجو ان کے کام کرتے تھے ان کے رب کے حکم سے۔)تفسير عثماني ميں هے:

"سرکش جنات پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت:"شیاطین سے مراد سرکش جن میں ، ان سے حضرت سلیمان دریا میں غوطہ لگواتے تاکہ موتی اور جواہر اس کی تہ میں سے نکالیں اور عمارات میں بھاری کام کرواتے اور حوض کے برابر تانبے کے لگن اور بڑی عظیم الشان دیگیں جو اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں ، بنوا کر اٹھواتے  تھے،اور سخت سخت کام ان سے لیتے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قسم کے حیرت انگیز کام اس زمانہ میں اللہ تعالی نے مادی قوتوں سے کروائے ہیں اس وقت مخفی اور روحی قوتوں سے کرائے جاتے تھے۔"

(تفسیر عثمانی:سورۃ الانبیاء،ص:577، ط:دارالاشاعت)

اسی طرح دیگر آیات ،احادیث ،آثار اور علمائے کرام کی بیان کردہ تفسیر و تشریح کے مطابق  جنات غیر معمولی طاقت و قدرت کی حامل مخلوق ہے،لہذا انہیں مقفل شدہ دروازہ کھولنے اور گھر کی دیگر اشیاء اور رقوم کو منتقل کرنے کی قدرت بھی حاصل ہے،لیکن اس بارےمیں زیادہ خیالی دنیا میں جانے اور غورفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اس قسم کا واقعہ پیش آنے کی صورت میں اپنے سامان کی حفاظت کے اقدامات کے ساتھ ساتھ حفاظتی اعمال و اذکارکا اہتمام کرے، مثلاً:

1- گھر اور کمروں کے دروازے  نیز الماری، پرس وغیرہ (جہاں قیمتی اشیاء رکھتے ہیں) بند کرتے وقت بھی’بسم الله الرحمن الرحيم‘  پڑھا کریں۔

2-  صبح وشام اور رات کو سوتے وقت اور رقم وغیرہ رکھتے وقت آیۃ الکرسی پڑھنے کا اہتمام کریں۔

3- صبح و شام کی دعائیں جو عام کتابچوں میں مل جاتی ہیں ان کا معمول بنالیں۔

4- قیمتی سامان جہاں بھی رکھیں وہاں کسی پرچی پر ’’فَاللهُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ لکھ کر رکھ دیجیے۔

5-  گھر میں سورۂ بقرہ کی قدرے آواز سے تلاوت کا معمول بنالیا جائے۔

اور اگر اس کے باوجود افاقہ نہ ہوتو مستند و معتبر متبع شریعت عالمِ دین سے براہ راست رابطہ کرکے راہ نمائی لی جائے۔

تفسیر طبری میں ہے:

"وقوله (ومن الجن من يعمل بين يديه بإذن ربه) يقول تعالى ذكره: ومن الجن من يطيعه ويأتمر بأمره وينتهى لنهيه؛ فيعمل بين يديه ما يأمره طاعة له بإذن ربه، يقول: بأمر الله بذلك، وتسخيره إياه له ... القول في تأويل قوله تعالى: (يعملون له ما يشاء من محاريب وتماثيل وجفان كالجواب وقدور راسيات)...عن مجاهد قوله (ما يشاء من محاريب) قال: بنيان دون القصور...عن قتادة (يعملون له ما يشاء من محاريب) وقصور ومساجد...وقوله (وتماثيل) يعني أنهم يعملون له تماثيل من نحاس وزجاج...قوله (وجفان كالجواب) يقول: وينحتون له ما يشاء من جفان كالجواب، وهي جمع جابية والجابية: الحوض الذي يجبى فيه الماء...عن قتادة (وجفان كالجواب) قال: جفان كجوبة الأرض من العظم، والجوبة من الأرض: يستنقع فيها الماء...وقوله (وقدور راسيات) يقول: وقدور ثابتات لا يحركن عن أماكنهن، ولا تحول لعظمهن...عن قتادة (وقدور راسيات) قال: عظام ثابتات الأرض لا يزلن عن أمكنتهن...قال ابن زيد في قوله (وقدور راسيات) قال: مثال الجبال من عظمها، يعمل فيها الطعام من الكبر والعظم، لا تحرك ولا تنقل."

(سورة السباء، ج:20، ص:364 الي 368، ط:مؤسسة الرسالة)

تفسیر رازی میں ہے:

"المسألة السادسة: المشهور أن الجن لهم قدرة على النفوذ في بواطن البشر، وأنكر أكثر المعتزلة ذلك، أما المثبتون فقد احتجوا بوجوه: الأول: أنه إن كان الجن عبارة عن موجود/ ليس بجسم ولا جسماني فحينئذ يكون معنى كونه قادرا على النفوذ في باطنه أنه يقدر على التصرف في باطنه، وذلك غير مستبعد، وإن كان عبارة عن حيوان هوائي لطيف نفاذ كما وصفناه كان نفاذه في باطن بني آدم أيضا غير ممتنع قياسا على النفس وغيره."

(سورة الفاتحة، ‌‌الكتاب الأول،‌‌الباب الثاني في المباحث العقلية المستنبطة من قولنا: (أعوذ بالله من الشيطان الرجيم)،ج:1، ص:85، ط:دار احياء التراث العربي)

عمدۃالقاری میں ہے:

"وذكر أبو الحسن الأشعري في (مقالات أهل السنة والجماعة) أنهم يقولون: ‌إن ‌الجن ‌يدخل في بدن المصروع كما قال لله عز وجل:{الذين يأكلون الربا ألا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس}(البقرة: 275) وقال عبد الله بن أحمد بن حنبل: قلت لأبي: إن قوما يقولون: إن الجن لا تدخل في بدن الإنس، فقال: يا بني! يكذبون، هو ذا يتكلم على لسانه."

(كتاب العدة،باب فضل من يصرع من الريح، ج:21، ص:214، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الجن يتشكلون بصور شتى فقد يكون ذكرا تشكل بشكل أنثى، وما قيل من أن من سأل عن جواز التزوج بها يصفع لجهله وحماقته لعدم تصور ذلك بعيد؛ لأن التصور ممكن لأن تشكلهم ثابت بالأحاديث والآثار والحكايات الكثيرة ولذا ثبت النهي عن قتل بعض الحيات كما مر في مكروهات الصلاة على أن عدم تصور ذلك لا يدل على حماقة السائل كما قاله في الأشباه."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:5، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں