بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنات کا انسان کو نقصان پہنچانا


سوال

کيا جنات انسان کو نقصان دے سکتا ہیں،اگر ہاں  جواب ها ں تو دلیل  کیا ہے؟

جواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں جنات کی تعریف کا خلاصہ یہ ہے  کہ ایک ناری مخلوق جو مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے، جنات کی کوئی ایک شکل مخصوص ومتعین نہیں ہے، انسانوں کی طرح جنات بھی اَحکام کے مکلف ہیں، بعض مؤمن اور نیک ہیں، بعض کافر اور نافرمان ہیں۔ ان میں جو سرکش ہیں وہ شیطان کے معاون و مدد گار ہیں، اور انسانوں کو گم راہ کرنے میں ابلیس کا ساتھ دیتے ہیں۔جنات کا انسانوں کے پاس آنا کئی نصوص (آیات و احادیث) سے ثابت ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں جنات کے انسانوں کو پریشان کرنے کے واقعات اتنی کثرت سے ہوتے ہیں کہ ان کا انکار مشکل  ہے۔

جنّات کو اللہ  رب العزت نے  جسم لطیف دیا ہے، اور انسانی آزمائش کے  لیے یہ قدرت دے رکھی ہے کہ وہ  بعض تصرفات  کرکے انسانی زندگی پر اثر اندازہوسکتے ہیں،  جس کا قرآن وحدیث سے واضح ثبوت بھی ملتا ہے ، لہذا کسی کے جسم پر جن کا تسلط اور اس کے اثر سے مغلو ب ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے۔ جیسے کبھی کوئی ظالم و جابر انسان دوسرے انسان کو مظلوم و مجبور کردیتاہے۔

آکام المرجان فی احکام الجان میں ہے:

"ذكر أبو الحسن الأشعري في مقالات أهل السنة والجماعة أنهم يقولون: إن الجن تدخل في بدن المصروع، كما قال الله تعالى: {الذين يأكلون الربا لايقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس} ... عن ابن عباس أن امرأةً جاءت بابن لها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إن ابني به جنون، وإنه يأخذه عند غداءنا وعشاءنا، فمسح رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره ودعا له فتفتفه؛ فخرج من جوفه مثل الجرو الأسود فسعى ..." الخ

(آكام المرجان 1/130، 131، باب دخول الجن في بدن المصروع)

ترجمہ:  ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے بیٹے پر جنات کا اثر ہے، اور وہ صبح و شام اس پر آتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس بچے کے سینے پر ہاتھ مبارک پھیرا اور اس کے لیے دعا فرمائی اور تھتکارکر اس پر دم کیا، چناں چہ اس کے سینے سے کتے کے کالے بچے کی طرح کچھ نکل کر بھاگ گیا۔۔۔ الخ

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101890

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں