بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنات کو اپنا تابع بنانا اور اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنا کیسا ہے؟


سوال

جنات کو اپنا تابع بنانا اور اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

   واضح رہے کہ جنات  کو دوسروں کو ضرر پہنچانے کیلئے تابع کرنا درست نہیں ہے  اور نہ یہ عملیات کرنا درست ہیں نیزاس میں خطرات بھی ہیں،البتہ جنات  کے شر سے تحفظ اور دفع ظلم کے لئے جائز عملیات کرنا  درست ہے۔

جنات کو تابع کرنے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے جس کی وضاحت حضرت مفتی شفیع صاحب نے ذکر کی ہے، ذیل میں مذکورہے۔

معارف القرآن میں ہے:

”خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لئے بغیر قصد و عمل کے محض من جانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے۔

اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں استرقاقِ حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے واللہ اعلم۔"

(سورۃ سباء، آیت:14، ج:7، ص:267، ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃالمصابیح میں ہے:

"وأما ما كان ‌من ‌الآيات ‌القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذا أو رقية أو نشرة."

(كتاب الطب والرقى، الفصل الثاني، ج:7، ص:2880، ط:دار الفكر بيروت)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"(الضرورات تبيح المحضورات ومن ثم جاز أكل الميتة عندالمخمصة واللفظ بكلة الكفر عندالإكراه."

(الكلام في القواعد الفقهية، القواعد الخمس، القاعدة الثانية:الضرريزال، ج:1، ص:45، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں