حال ہی میں میری والدہ کی تدفین کراچی کے ایک قبرستان میں کی گئی ہے، تدفین کے بعد معلوم ہوا کہ قبر نشیبی حصے میں واقع ہے، بارش کے موسم میں وہاں تقریباً ایک سے ڈیڑھ فٹ تک پانی جمع رہتا ہے،اس سے قبر کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ ہے، دیگر افراد نے بھی اپنے عزیزوں کی قبروں کے اردگرد تقریباً ڈیڑھ سے دو فٹ اونچی دیواریں تعمیر کی ہیں۔
1)مذکورہ صورت میں قبر کی حفاظت کے لیے ڈیڑھ سے دو فٹ اونچی پکی دیوار بنانابغیر کسی تزیین و آرائش جیسے ٹائلز، ماربل وغیرہ درست ہےیا نہیں؟
2)کیا قرآن مجید کی تلاوت اور دعا کرنے کے لیے قبر کے ساتھ کوئی لکڑی یا پتھر کا بینچ بنانا درست ہے؟
1)صورت مسئولہ میں جن قبروں کے پاس پانی جمع ہوتا ہو اور قبروں کے خراب ہونے کا غالب امکان ہو تو ان قبروں کے ارد گرد بقدر ضرورت دیواریں بنانے کی گنجائش ہے ۔
2)قبروں کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے،لیکن قبروں کے پاس لکڑی یا پتھر کا بینچ بنانا شرعاً ثابت نہیں، اور انتظامی لحاظ سے بھی درست نہیں ؛کیوں کہ اس میں بے جا قبروں کی جگہ کو تنگ کرنا ہے ۔
" (قوله ولا يرفع عليه بناء) أي يحرم لو للزينة، ويكره لو للإحكام بعد الدفن، وأما قبله فليس بقبر إمداد. وفي الأحكام عن جامع الفتاوى: وقيل لا يكره البناء إذا كان الميت من المشايخ والعلماء والسادات اهـ قلت: لكن هذا في غير المقابر المسبلة كما لا يخفى (قوله: وقيل: لا بأس به إلخ) المناسب ذكره عقب قوله: ولا يطين لأن عبارة السراجية كما نقله الرحمتي ذكر في تجريد أبي الفضل أن تطيين القبور مكروه والمختار أنه لا يكره اهـ وعزاه إليها المصنف في المنح أيضا. وأما البناء عليه فلم أر من اختار جوازه. وفي شرح المنية عن منية المفتي: المختار أنه لا يكره التطيين. وعن أبي حنيفة: يكره أن يبني عليه بناء من بيت أو قبة أو نحو ذلك، لما روى جابر «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها» رواه مسلم وغيره اهـ نعم في الإمداد عن الكبرى: واليوم اعتادوا التسنيم باللبن صيانة للقبر عن النبش، ورأوا ذلك حسنا. وقال صلى الله عليه وسلم «ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن» . "
(كتاب الصلاة،باب صلاة الجنازة،مطلب في دفن الميت،237/2،ط: سعید)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :
"و لایکرہ الجلوس للقراء ة على القبر في المختار."
(كتاب الصلاة،باب أحكام الجنائز،فصل في زيارة القبور، ص:622،ط: العلمية بيروت)
فقط واللہ اَعلم
فتوی نمبر : 144603102928
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن