بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورونا کی وجہ سے جن ممالک میں قربانی کی اجازت نہ ہو تو رقم صدقہ کرنے کا حکم


سوال

 اگر کسی ملک میں کرونا کی وجہ سے قربانی کی اجازت نہ ہو تو قربانی کی رقم صدقہ میں دی جا سکتی ہے یا کون سی صورت اختیار کی جائے؟

جواب

واضح رہے کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے دنوں میں صاحبِ نصاب شخص پر قربانی کرنا واجب ہے،اس دن صاحبِ نصاب شخص کے لیے قربانی چھوڑ کر صدقہ کرنا یا کسی اور کارِ خیر میں لگانا شرعاً جائز نہیں، قربانی نہ کرنے والوں کے لیے سخدت وعیدیں آئی ہیں،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ؒ جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ  کے قریب ہرگز نہ آئے، حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال  مقیم رہے قربانی کرتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : قربانی کے دنوں میں کوئی آدمی قربانی کے جانور کے خون بہانے سے افضل عمل نہیں کرتا، قیامت والے دن اس جانور کو اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا، خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے ہاں قبولیت کا مرتبہ پالیتا ہے، لہذا خوش دلی سے قربانی کرو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں موجودہ حالات اور وبا کے تناظر میں اگر کسی ملک میں قربانی کی اجازت نہ ہو تو کسی ایسے ملک میں کسی شخص کو وکیل بنا لیا جائے جہاں قربانی کی اجازت ہو، قربانی کا وکیل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جس دن وکیل قربانی کرے اس دن دونوں جگہوں میں عید ہو،قربانی کے دنوں میں قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی کا وجوب ادا نہ ہوگا، البتہ اگراپنے ملک میں اور نہ ہی کسی دوسرے ملک میں قربانی کرسکے اور قربانی کے دن گزر جائیں تو پھر اس رقم کو صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

وعن عائشة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «ما عمل ابن آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، وإنه ليؤتى يوم القيامة، بقرونها وأشعارها وأظلافها، وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع بالأرض، فطيبوا بها نفسا»  رواه الترمذي، وابن ماجه.

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب في الأضحية ص:128 ط: قديمي)

وعن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: «أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي» . رواه الترمذي.

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب في الأضحية ص:129 ط: قديمي)

عن أبي هريرة ، رضي الله عنه ، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : من كان له مال فلم يضح فلا يقربن مصلانا وقال مرة : من وجد سعة فلم يذبح فلا يقربن مصلانا.

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.

(المستدرك ، كتاب الأضاحي 4 / 231 ط: دار الكتب العلمية)

قال في الجوهرة: والدليل على أنها الإراقة لو تصدق بين الحيوان لم يجز، والتصدق بلحمها بعد الذبح مستحب وليس بواجب اهـ

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 313)
(ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا، ولو ذبحها تصدق بلحمها، ولو نقصها تصدق بقيمة النقصان أيضا ولا يأكل الناذر منها؛ فإن أكل تصدق بقيمة ما أكل.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6 / 320) ط: سعید)

(و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا) لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6 / 321) ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں