بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جن جوتوں میں خنزیر کا چمڑا لگا ہو اس کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

ہم لنڈے میں جوتوں کا کام کرتے ہیں جس میں کچھ چمڑےکےجوتے بوٹ وغیرہ ایسے آتے ہیں جن کے بارے میں چمڑے کے تاجر کہتے ہیں کہ یہ سور کا چمڑا ہے،  اور چند جوتے ایسے ہیں جن کے بارے میں تاجروں کا اختلاف ہے،  ایسے جوتوں کی تجارت کا کیا حکم ہے ؟ نیز جوتوں میں چمڑے کے پیس لگے ہوتے ہیں پورا جوتا چمڑے کا نہیں ہوتا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  جوتوں کے متعلق یقین یا غالب گمان یہ ہو کہ اس میں خنزیر کا  چمڑا لگا ہے، تو اس کا استعمال  اور تجارت جائز نہیں ہے، یعنی اس کی خرید و فروخت جائز  نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"والصحيح أن ‌جلد ‌الخنزير لا يطهر بالدباغ؛ لأن نجاسته ليست لما فيه من الدم والرطوبة بل هو نجس العين، فكان وجود الدباغ - في حقه - والعدم بمنزلة واحدة."

 (كتاب الطهارة، فصل بيان ما يقع به التطهير، ج:1، ص:86، ط:دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولا ينعقد بيع ‌جلد ‌الخنزير كيف ما كان؛ لأنه نجس العين بجميع أجزائه، وقيل: إن جلده لا يحتمل الدباغ، وأما عظم الميتة وعصبها، وشعرها، وصوفها، ووبرها، وريشها، وخفها وظلفها، وحافرها فيجوز بيعها، والانتفاع بها - عندنا وعند الشافعي رحمه الله لا يجوز بناء على أن هذه الأشياء طاهرة - عندنا - وعنده نجسة، واحتج بقوله سبحانه وتعالى {حرمت عليكم الميتة} [المائدة: 3] وهذه من أجزاء الميتة فتكون حراما فلا يجوز بيعها وقال عليه الصلاة والسلام: «لا تنتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب."

 (كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج:5، ص:142، ط:دار الكتب العلمية)

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري میں ہے:

"ولا يجوز بيع ‌جلد ‌الخنزير ولو كان مدبوغا؛ لأنه لا يطهر بالدباغ وأجاز أصحابنا جميعا بيع السرجين، والبعر وشراءه والانتفاع به للوقود ولا يجوز بيع لبن بنات آدم..قوله: (ولا يجوز بيع الخمر، والخنزير) لأنهما حرام."

 (كتاب البيوع،باب السلم، ج:1، ص:220، ط:دار الكتب العلمية)

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي میں ہے:

"واستثنوا من ذلك ‌جلد ‌الخنزير فلا يجوز استعماله مطلقا، دبغ أو لم يدبغ، في يابس أو مائع، وكذا جلد الآدمي، لشرفه وكرامته، وأما صوف الحيوان ونحوه فلا ينجس بالموت عند المالكية.وعند الحنابلة روايتان في الانتفاع بالجلد النجس المدبوغ."

 (‌‌الباب الأول  الطهارات،‌‌المبحث الثالث ـ أنواع المطهرات، ج:1، ص:253، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں