بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماع کے وقت میاں بیوی کا ایک دوسرے کے جسم کو دیکھنے کا حکم


سوال

جماع کے دوران شوہر کا اپنی بیوی کی شرم گاہ دیکھنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کے لئے ایک دوسرے کا جسم ستر نہیں ہے،جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"حدثنا محمد بن بشار حدثنا يحيى بن سعيد حدثنا بهز بن حكيم حدثني أبي عن جدي قال قلت : يا رسول الله عوراتنا ما نأتي منها وما نذر ؟ قال احفظ عورتك إلا من زوجتك أو مما ملكت يمينك فقال الرجل يكون مع الرجل ؟ قال إن استطعت أن لا يراها أحد فافعل قلت والرجل يكون خاليا قال فالله أحق أن يستحيا منه. قال أبو عيسى هذا حديث حسن".

(سنن الترمذی، کتاب الآداب، باب حفظ العورۃ، رقم الحدیث:، ج:5، ص:97، ط:داراحیاء التراث العربی)

ترجمہ:  محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، بہز بن حکیم اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے  عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم اپنا ستر کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ ہر ایک سے چھپاؤ، انھوں نے عرض کیا اگر کوئی کسی مرد کے ساتھ ہو تو ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں تک ہو سکے اپنے ستر (یعنی شرمگاہ) کی حفاظت کرو کہ کوئی نہ دیکھ پائے،  عرض کیا بعض اوقات آدمی اکیلا ہی ہوتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ 

لہذا جماع کے دوران میاں بیوی ایک دوسرے کے جسم کو دیکھ سکتے ہیں،البتہ حیا کا تقاضہ یہ ہے  کہ اس دوران ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھا جائے، اور یہ عمل خود  حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے، جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں ہے:

"عن عائشة، قالت: «ما نظرت، أو ما رأيت فرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قط»".

(سنن ابن ماجه، کتاب الطهارۃ وسننھا، باب النهي أن يرى عورة أخيه، ج:1، ص:216، ط:داراحیاء الکتب العربیة)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نہ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مستورہ اعضاء دیکھے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ستر کبھی دیکھا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وينظر الرجل إلى فرج أمته وزوجته) يعني عن شهوة وغير شهوة قال - عليه الصلاة والسلام - «غض بصرك إلا عن زوجتك، وأمتك» وما روي عن عائشة «قالت كنت أغتسل أنا ورسول الله - صلى الله عليه وسلم - في إناء واحد» ولأنه يجوز له المس والغشيان فالنظر أولى إلا أن الأولى أن لا ينظر كل منهما إلى عورة صاحبه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «إذا أتى أحدكم زوجته فليستتر ما استطاع ولا يتجردان تجرد البعير» ؛ لأن النظر إلى العورة يورث النسيان".

(کتاب الکراهیة، فصل فی النظر والمسّ، ينظر الرجل إلى فرج أمته وزوجته، ج:8، ص:220، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں