بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جلد سازی کے لیے دینی بوسیدہ اوراق استعمال کرنا


سوال

میرا روزگار درس نظامی کی کتب اور دیگر اسلامی مطبوعات کی جلد سازی سے وابستہ ہے ،جلد سازی کے دوران کتاب کی پشت پر جلد کے اندرونی حصے میں کاغذ کی پٹی چپکائی جاتی ہے تاکہ کتاب کے صفحات آپس میں مضبوطی سے چپکے رہیں ،ہمارے پاس ان کتابوں کے ناقص صفحات موجود ہوتے ہیں جو ہم احترام سے جمع کرکے سمندر میں ڈلواتے ہیں ،کیا ان ناقص صفحات کو پٹئ کے سائز میں کاٹ کر کتاب کی پشت پر جلد کے اندرونی حصے میں استعمال کرنا جائز ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر بوسیدہ صفحات پر کوئی قرآنی آیت لکھی ہو یا حدیث شریف لکھی ہو یا  اللہ جل شانہ کے ناموں میں سے کوئی نام لکھا ہوا یاانبیاءکرام علیہم الصلاۃ و السلام کے ناموں میں سے کوئی  نام ہوتو انہیں جلد سازی کے لیے استعمال کرنے میں بے ادبی کا شائبہ پایاجاتاہے  اس لیے مذکورہ عمل سے احتراز ضروری ہے۔

اور   اگر ان صفحات میں قرآنی آیت یا حدیث شریف  نہ لکھی ہو ، اسی طرح اللہ جل شانہ یا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام  کے ناموں میں سے کسی کا نام  نہ  لکھاہو تو جلد سازی کے لیے ان صفحات کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل‘‘. 

                       (‌‌كتاب الحظر والإباحة،ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ويكره أن يجعل شيئا في كاغدة فيها اسم الله تعالى ‌كانت ‌الكتابة على ظاهرها أو باطنها، بخلاف الكيس عليه اسم الله تعالى فإنه لا يكره، كذا في الملتقط.

وإذا كتب اسم الله تعالى على كاغد ووضع تحت طنفسة يجلسون عليها فقد قيل: يكره، وقيل: لا يكره، وقال: ألا ترى أنه لو وضع في البيت لا بأس بالنوم على سطحه كذا هاهنا، كذا في المحيط.

ولا يجوز لف شيء في كاغد فيه مكتوب من الفقه، وفي الكلام الأولى أن لا يفعل، وفي كتب الطب يجوز، ولو كان فيه اسم الله تعالى أو اسم النبي - صلى الله عليه وآله وسلم -، ويجوز محوه ليلف فيه شيء، كذا في القنية.

ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب.

ومحو بعض الكتابة بالريق يجوز، كذا في القنية.

سئل أبو حامد عن الكواغد من الأخبار ومن التعليقات يستعملها الوراقون في الغلاف فقال: إن كان في المصحف أو في كتب الفقه أو في التفسير فلا بأس به، وإن كان في كتب الأدب والنجوم يكره لهم ذلك، كذا في الغرائب.

حكى الحاكم عن الإمام أنه كان يكره استعمال الكواغد في وليمة ليمسح بها الأصابع، وكان يشدد فيه ويزجر عنه زجرا بليغا، كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،5/ 322،ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں