بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاز میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

جہاز میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

 جہاز میں نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ جہاز میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں،اگر  جہاز میں فرض یا واجب نماز قبلہ رو، کھڑے ہوکر، فرش پر رکوع، سجدے کے ساتھ ادا کرنا ممکن نہ ہو تو فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، یعنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی اشارے سے نماز پڑھ لے، پھر ایئرپورٹ پہنچنے پر جس نماز کا وقت باقی ہو اُس کا اعادہ کرلے اور باقی نمازوں کی قضا کرلے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن أراد أن يصلي في سفينة تطوعا أو فريضة فعليه أن يستقبل القبلة ولا يجوز له أن يصلي حيثما كان وجهه."

(كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الثالث في استقبال القبلة، ج:1، ص:63، ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"و في الخلاصة و فتاوى قاضي خان و غيرهما: الأسير في يد العدو إذا منعه الكافر عن الوضوء و الصلاة يتيمم و يصلي بالإيماء ثم يعيد إذا خرج، و كذا لو قال لعبده: إن توضأت حبستك أو قتلتك، فإنه يصلي بالتيمم ثم يعيد كالمحبوس؛ لأن طهارة التيمم لم تظهر في منع وجوب الإعادة، و في التجنيس: رجل أراد أن يتوضأ فمنعه إنسان عن أن يتوضأ بوعيد، قيل: ينبغي أن يتيمم و يصلي ثم يعيد الصلاة بعد ما زال عنه؛ لأن هذا عذر جاء من قبل العباد فلا يسقط فرض الوضوء عنه اهـ. فعلم منه أن العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة و إن كان من قبل العبد وجبت الإعادة."

(کتاب الطهارة، باب التیمم، ج:1، ص:149، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144503100743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں