ایک آدمی نے زمین مدرسہ کے لیے وقف کی پھر نیت بدل کر اسی زمین کو قبرستان کی لیے وقف کردیا پھر دوسری مرتبہ یہ کہہ کر کہ قبرستان کے لیے دوسری زمین مقرر کرتے ہیں اس کو دوبارہ مدرسہ کے لیے وقف کردیا ،اب پوچھنا یہ ہے کہ وقف میں نیت کو اس طرح تبدیل کرنا درست ہے ؟
اگر کوئی زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی گئی، اور متولی یا ذمہ داران کے حوالہ کردی گئی، تو یہ زمین مدرسہ کے لئے وقف ہوکر،ہمیشہ ہمیشہ کے لئے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی گئی، وقف مکمل ہونے کے بعد اس کی جہت میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں،لہذا یہ موقوفہ جگہ مدرسہ کی ہے۔ ہاں اگر واقف نے ابتداءً مدرسہ کے لئے زمین کو وقف کرتے ہوئے ضرورت کے وقت وقف کی جہت تبدیل کرنے کی شرط لگائی تھی تو اب وہ جہتِ وقف میں تبدیلی کرسکتا ہے ورنہ نہیں ۔
الدر المختار میں ہے:
"(وَلَا يَتِمُّ) الْوَقْفُ (حَتَّى يُقْبَضَ) لَمْ يَقُلْ لِلْمُتَوَلِّي لِأَنَّ تَسْلِيمَ كُلِّ شَيْءٍ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَفِي الْمَسْجِدِ بِالْإِفْرَازِ وَفِي غَيْرِهِ بِنَصْبِ الْمُتَوَلِّي وَبِتَسْلِيمِهِ إيَّاهُ ابْنُ كَمَالٍ (وَيُفْرَزُ) فَلَا يَجُوزُ وَقْفُ مَشَاعٍ يُقْسَمُ خِلَافًا لِلثَّانِي (وَيُجْعَلُ آخِرُهُ لِجِهَةِ) قُرْبَةٍ (لَا تَنْقَطِعُ)۔"
(الدر المختار مع رد المحتار، 4/348، ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"اعْلَمْ أَنَّ الِاسْتِبْدَالَ عَلَى ثَلَاثَةِ وُجُوهٍ: الْأَوَّلُ: أَنْ يَشْرِطَهُ الْوَاقِفُ لِنَفْسِهِ أَوْ لِغَيْرِهِ أَوْ لِنَفْسِهِ وَغَيْرِهِ، فَالِاسْتِبْدَالُ فِيهِ جَائِزٌ عَلَى الصَّحِيحِ وَقِيلَ اتِّفَاقًا. وَالثَّانِي: أَنْ لَا يَشْرُطَهُ سَوَاءٌ شَرَطَ عَدَمَهُ أَوْ سَكَتَ لَكِنْ صَارَ بِحَيْثُ لَا يُنْتَفَعُ بِهِ بِالْكُلِّيَّةِ بِأَنْ لَا يَحْصُلَ مِنْهُ شَيْءٌ أَصْلًا، أَوْ لَا يَفِي بِمُؤْنَتِهِ فَهُوَ أَيْضًا جَائِزٌ عَلَى الْأَصَحِّ إذَا كَانَ بِإِذْنِ الْقَاضِي وَرَأْيِهِ الْمَصْلَحَةَ فِيهِ. وَالثَّالِثُ: أَنْ لَا يَشْرُطَهُ أَيْضًا وَلَكِنْ فِيهِ نَفْعٌ فِي الْجُمْلَةِ وَبَدَلُهُ خَيْرٌ مِنْهُ رِيعًا وَنَفْعًا، وَهَذَا لَا يَجُوزُ اسْتِبْدَالُهُ عَلَى الْأَصَحِّ الْمُخْتَارِ."
(شامی، 4/384، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100079
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن