بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا مجاہد کے ہتھیار خریدنے کے لیے اپنا ہار وقف کرنا


سوال

 ایک عورت فرض جہاد کے دوران  مجاہد کے لیے ہتھیار خریدنے کے لیے اپنا سونے کا "ہار" وقف کردے۔ اور پیچیدگیوں کی وجہ سے مذکورہ ’’ہار‘‘ استعمال نہ کیا جائے اور وه مالک کے پاس ہی باقی رہے۔ اور فرض جہاد کا حکم بھی ختم ہوجائے  تو  مذکورہ "ہار" کا شریعتِ  مقدسہ  کی روشنی میں کیا حکم ہے؟

نوٹ: سائل نے مذکورہ عورت سے اس کے ادا کردہ الفاظ کی وضاحت لی ہے،  جس پر وہ عورت کہہ رہی ہے کہ  میں نے اس وقت "وقف" کے الفاظ استعمال کیے تھے، یعنی سونے کا  ہار  مجاہد کے  ہتھیار خریدنے کے لیے وقف کیا تھا۔ 

جواب

واضح رہے کہ اصلاً منقولی اشیاء(چیزوں)  کو وقف کرنا جائز نہیں، البتہ وہ اشیاء منقو  لہ جو غیر منقول کے تابع ہوتی ہیں جیسے زمین کے لیے کھیتی کے آلات، بیل، ٹریکٹر وغیرہ ان کا وقف بھی ان کے اصل کے ساتھ کرنا بھی جائز ہے، اسی طرح منقولی اشیاء میں  سے جنگی ہتھیاروں اور گھوڑوں کا وقف بھی جائز ہے،  اس کے علاوہ جن اشیاء منقولہ  میں وقف کرنے کا عرف ہو جیسے قرآن مجید  تو ان کو وقف کرنا بھی  جائز  ہے اور جن اشیاء منقولہ میں وقف کا عرف نہیں جیسے حیوان، ہار، کپڑے وغیرہ تو ان کو وقف کرنا  درست نہیں۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے ہتھیار خریدنے کے لیے مذکورہ ہار  کا وقف  درست نہیں تھا، لہذا یہ ہار عورت کی ملکیت میں ہی ہے، وہ اس میں جس طرح تصرف کرنا چاہے کرسکتی ہے۔دوم یہ کہ اگر عورت کی طرف سے صدقہ کیا جاتا تو اس صورت میں بھی جب مذکورہ مقصد میں استعمال نہیں ہوا، لہذا اب عورت کی رضامندی کے بغیر کسی اور مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں۔   

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"(الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع) يجوز وقف العقار مثل الأرض والدور والحوانيت كذا في الحاوي وكذا يجوز وقف كل ما كان تبعا له من المنقول كما لو وقف أرضا مع العبيد والثيران والآلات للحرث كذا في محيط السرخسي 

وأما وقف المنقول مقصودا فإن كان كراعا أو سلاحا يجوز وفيما سوى ذلك إن كان شيئا لم يجر التعارف بوقفه كالثياب والحيوان لا يجوز عندنا وإن كان متعارفا كالفأس والقدوم والجنازة وثيابها وما يحتاج إليه من الأواني والقدور في غسل الموتى والمصاحف لقراءة القرآن قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: إنه لا يجوز، وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يجوز، وإليه ذهب عامة المشايخ رحمهم الله تعالى منهم الإمام السرخسي كذا في الخلاصة وهو المختار والفتوى على قول محمد - رحمه الله تعالى -، كذا قال شمس الأئمة الحلواني كذا في مختار الفتاوى". 

(كتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، ج:2، ص:360، 361، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كما صح أيضا ‌وقف ‌كل (‌منقول) ‌قصدا (فيه تعامل) للناس (كفأس وقدوم) بل (ودراهم ودنانير) 

(قوله: كل منقول قصدا) إما تبعا للعقار فهو جائز بلا خلاف عندهما كما مر لا خلاف في صحة وقف السلاح والكراع أي الخيل للآثار المشهورة والخلاف فيما سوى ذلك فعند أبي يوسف لا يجوز وعند محمد يجوز ما فيه تعامل من المنقولات واختاره أكثر فقهاء الأمصار كما في الهداية وهو الصحيح كما في الإسعاف، وهو قول أكثر المشايخ كما في الظهيرية؛ لأن القياس قد يترك بالتعامل ونقل في المجتبى عن السير جواز وقف المنقول مطلقا عند محمد وإذا جرى فيه التعامل عند أبي يوسف وتمامه في البحر والمشهور الأول". 

(کتاب الوقف، ج:4، ص:363، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں