کیا مسجد میں جہاد کے فنڈمیں سےرقم صرف کی جاسکتی ہے؟
واضح رہے کہ واقف (وقف کرنے والا) جس مد (مثلاً جہاد) میں اپنا مال و جائیداد وقف کرے، تو مالِ موقوف کو اس کے علاوہ کسی بھی مد میں صرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جہاد اور مسجد کے لیے وقف کرنا دو مختلف جہتیں ہیں، لہذا کسی ایک کے لیے وقف شدہ مال دوسرے میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جہاد فنڈ کی رقم مسجد میں صرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد، (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك.
(قوله: اتحد الواقف والجهة) بأن وقف وقفين على المسجد أحدهما على العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح، والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الوقف متحدا لأن غرضه إحياء وقفه، وذلك يحصل بما قلنا عن البزازية وظاهره اختصاص ذلك بالقاضي دون الناظر."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:360، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100547
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن