ایک وقت میں ایک ہی چیز کے دوبیع کرنا اس طور پر کہ جس سے چیز خریدی ہے اسی نشست میں اسی شخص کو دو سال بعد کی ادائیگی پر بیچنا کیسا ہے؟
کسی سے کوئی چیز خرید کر اسی مجلس میں اسے واپس ادھار بیچنے کے جواز کی چند شرائط ہیں:
1۔پہلے عقد میں مشتری نے نقد ادائیگی کرکے مبیع پر قبضہ بھی کرلیا ہو، یعنی قیمت ادھار نہ ہو اور مشتری مبیع پر قبضہ بھی کرلے۔
2۔ عقد کرتے وقت یہ شرط نہ ہو کہ خریدار دوبارہ اسی بیچنے والے شخص کو بیچے گا۔
3۔ بیع کا مقصد حیلہ کرکے اضافی رقم کے ساتھ قرض کا لین دین نہ ہو۔
ان شرائط کا اگر لحاظ رکھا جائے تو اس صورت میں یہ بیع جائز ہوگی، ورنہ بیع فاسد ہوگی اور عقد کو فسخ کرنا لازم ہوتا ہوگا۔
مندرجہ بالا شرائط کے مطابق اگر بیع ہوتوجائز ہے، لیکن جہاں کسی شخص کو اصل پیسوں کی ضرورت ہو اور پیسوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے درمیان میں حیلے کے طورپر کسی چیز کو لایا جاتا ہووہاں ایسی بیع ناجائز ہوگی۔
البحر الرائق میں ہے:
" قوله: (وشراء ما باع بالاقل قبل النقد) أي لم يجز شراء البائع ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن، وإنما منعنا جوازه استدلالا بقول عائشة رضي الله تعالى عنها لتلك المرأة وقد باعت بستمائة بعدما اشترت بثمانِ مائةٍ بِئسَ ما شريت واشتريت ابلغني زيد بن أرقم أنّ الله تعالى أبطل حجه وجهاده مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لم يتب.ولان الثمن لم يدخل في ضمانه فإذا وصل إليه المبيع وقعت المقاصصة فبقي له فضل بلا عوض بخلاف ما إذا باع بالعرض لان الفضل إنما يظهر عند المجانسة. وأما شراء البائع ممن اشترى من مشتريه فجائز وفاقا. ولا بد من اتحاد جنس الثمنين لانه حينئذ يظهر النقصان، فإن اختلف الجنس جاز مطلقا والدراهم والدنانير هنا جنس واحد احتياطا وقدمنا أنهما جنسان إلا في ثمانية في أول البيوع فإذا كان النقد الثاني أقل من قيمة الاول لم يجز."
(البحر الرائق: كتاب البيع/ باب البيع الفاسد، ج:6 ص:136، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144511101573
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن