جھوٹ بولنے کی شریعت میں بہت زیادہ ممانعت ہے، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ روزگار کے سلسلے میں کئی بار اگر بے جا تنگ کیا جاتا ہو، جو کام ہماری ذمہ داری نہ ہو وہ بھی ڈال دیا جائے تو کیا اس صورت میں جھوٹ بول سکتے ہیں؛ تا کہ ہمارا بے جا استحصال نہ ہو سکے؟ سچ بولنے کی صورت میں فساد کا خدشہ ہو کہ بے جا کام بھی کرنا پڑے گا اور فساد بھی ہو گا، یا صبر سے کام لیا جائے؟
جھوٹ بولنا بہر حال ناجائز ہے، البتہ ظلم یا بے جا اور ناجائز کام سے بچنے کے لیے ذو معنٰی بات کہی جاسکتی ہے جو جھوٹ بھی نہ ہو اور ظلم سے نجات بھی مل جائے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو جواب دیا جو ہجرت کے سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتے ہوئے پکڑنے کی غرض سے آیا تھا، جب اس نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے رستہ بتانےوالے ہیں، اور مراد یہ لیا کہ مجھے جنت کا رستہ دکھانے والے ہیں۔ جب کہ سننے والے نے سمجھا کہ عرب کے دستور کے مطابق دورانِ سفر راستہ بتانے والے (گائیڈ) ہیں۔ اس طرح کا جملہ کہہ کر ظلم سے بچا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200406
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن