کسی کو غلط ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہی دینے والا /والی کےلیے کیا حکم ہے؟
کسی کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرک کے برابر قرار دیا ہے،اور اگر کسی مرد یا عورت پر جھوٹی گواہی دینے کا جرم ثابت ہوجائےتو قاضی اسے تعزیراسزادے گا، نیز آئندہ جب تک توبہ نہ کرے تو اس کی گواہی معتبر نہیں ہوگی۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"وعن خريم بن فاتك قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح فلما انصرف قام قائما فقال: «عدلت شهادة الزور بالإشراك بالله» ثلاث مرات. ثم قرأ: (فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور حنفاء لله غير مشركين به). رواه أبو داود وابن ماجه"
’’اور حضرت خریم بن فاتک کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے کہ ’’جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر کی گئی ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطورِ دلیل) یہ آیت تلاوت فرمائی((فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ.))(بتوں کی پرستش) سے بچو اور جھوٹ بولنے سے اجتناب کرو، کیوں کہ تم باطل سے حق کی طرف رجوع کرنے والے ہو نہ کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہو۔‘‘
(کتاب الامارۃ والقضاء، باب الاقضیۃ والشہادۃ،339/2،رحمانیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(من ظهر أنه شهد بزور) بأن أقر على نفسه ولم يدع سهوا أو غلطا كما حرره ابن الكمال، ولا يمكن إثباته بالبينة لأنه من باب النفي (عزر بالتشهير) وعليه الفتوى سراجية، وزاد ضربه وحبسه مجمع. وفي البحر: وظاهر كلامهم أن للقاضي أن يسحم وجهه إذا رآه سياسة، وقيل إن رجع مصرا ضرب إجماعا، وإن تائبا لم يعزر إجماعا، وتفويض مدة توبته لرأي القاضي على الصحيح لو فاسقا، ولو عدلا أو مستورا لا تقبل شهادته أبدا. قلت: وعن الثاني تقبل، وبه يفتى عيني وغيره، والله أعلم.
(قوله شهد بزور) والرجال والنساء فيها سواء بحر عن كافي الحاكم..(قوله أبدا) لأن عدالته لا تعتمد منلا علي."
(كتاب الشهادات،باب الشهادة على الشهادة،503/3،سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604102772
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن