بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر اللہ کو سجدہ کرنے کا حکم


سوال

اکثر لوگ مزاروں پر جاتے ہیں وہاں پر وہ دروازے پر سجدہ کرتے ہیں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں کیا یہ لوگ گنہگار شمار ہوں گے یا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں کسی مزار یا پیر کی طرف منہ کرکے سجدہ کرنےکے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر سجدہ  مزار کے پیر صاحب کی عبادت اور تعظیم کے لیے کیا ہےتو یہ کفر ہے، تجدید ِایمان کے ساتھ ساتھ شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدید ِنکاح بھی ضروری ہے، اور اگر عبادت اور تعظیم کے لیے نہیں صرف سلامی (تحیہ) کے لیے کیا ہےتو کفر تو نہیں،  لیکن گمراہی  ہے، اور کبیرہ گناہ ہے۔ ایسے آدمی پر بھی توبہ و استغفار لازم ہے، باقی تجدیدِ نکاح لازم نہیں ہے۔نیز اللہ کے علاوہ کسی اور کو مقصود بناکر نماز پڑھنا مطلقاً کفر ہے، ایسا کرنے والے پر  تجدید ِایمان کے ساتھ ساتھ شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِنکاح بھی لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا) ما يفعلونه من (تقبيل الأرض بين يدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي به آثمان لأنه يشبه عبادة الوثن وهل يكفران: على وجه العبادة والتعظيم كفر وإن على وجه التحية لا وصار آثما مرتكبا للكبيرة.(قوله :إن على وجه العبادة أو التعظيم كفر إلخ) تلفيق لقولين قال الزيلعي: وذكر الصدر الشهيد أنه لا يكفر بهذا السجود، لأنه يريد به التحية وقال شمس الأئمة السرخسي: إن كان لغير الله تعالى على وجه التعظيم كفر اهـ قال القهستاني: وفي الظهيرية يكفر بالسجدة مطلقا."

(كتاب الحظر والإباحة ، ج:6، صفحہ:  383، ط: ایچ، ایم،سعيد)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"وكذلك لو أكره على أن يصلي لهذا الصليب، ومعناه يسجد لهذا الصليب، فإن لم يخطر بباله شيء لم تبن امرأته منه، وإن خطر بباله أن يصلي لله، وهو مستقبل القبلة، أو غير مستقبل القبلة ينبغي أن يقصد ذلك؛ لأن الصلاة غير مستقبل القبلة تجوز عند الضرورة، والأعمال بالنيات، فإن ترك هذا بعد ما خطر بباله فصلى يريد الصلاة للصليب كما أكره عليه كفر بالله تعالى، وبانت منه امرأته؛ لأنه بعدما خطر بباله قد وجد المخرج عما ابتلي به، فإذا لم يفعل كان كافرا، وهذه المسألة تدل على أن السجود ‌لغير ‌الله تعالى على وجه التعظيم كفر."

(كتاب الإكراه، باب ما يخطر على بال المكره من غير ما أكره عليه، ج: 24، صفحہ: 130، ط:دار المعرفة بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں