بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی قسم کھانا/ بچوں کی قسم کھانا


سوال

جھوٹی قسم کھانا کیسا ہے ؟ کوئی شخص اپنے دوست کو راضی کرنے کے لیے اپنے بچوں کی جھوٹی قسم کھائے تو اب کیا کرنا چاہیے؟

 

جواب

جھوٹی  قسم  کھانا کبیرہ  گناہوں میں سے  شدید  ترین  گناہ  ہے، جھوٹی قسم کا مطلب  یہ  ہے کہ انسان اللہ  رب العزت  کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے، اگر مذکورہ شخص نے واقعتًا  جھوٹی قسم کھائی ہے تو  وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، اسے چاہیے کہ سچی توبہ کرے، اور توبہ  کی تکمیل یہ ہے کہ اس قسم کے  نتیجے میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو اس کی تلافی کرے، البتہ جھوٹی قسم کی صورت میں کفارہ نہیں ہے، تاہم اللہ کی رضا کے لیے کچھ صدقہ دے سکتاہے۔

نیز  اللہ  تعالیٰ کے  نام اور  صفات کے سوا کسی اور کی قسم کھانا سخت گناہ ہے، مثلاً :  رسول کی قسم، کعبہ کی قسم، اولاد کی قسم، باپ کی قسم، بھائی کی قسم یا اولاد  یا والدین کے سر  کی قسم وغیرہ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات کے علاوہ کسی اور   کی قسم کھائی تو شرعًا  یہ قسم نہیں ہوتی؛ لہذا صورتِ مسئولہ  میں  اگر بچوں کی قسم کھانے  سے  مراد یہی ہے کہ اس شخص نے بچوں کے نام یا سر کی قسم  کھائی تو  یہ قسم منعقد  ہی نہیں ہو گی۔ ایسے شخص پر کوئی کفارہ تو لازم نہیں ہے،  لیکن  غیر اللہ کی قسم کھانے اور جھوٹ بولنے کا گناہ لازم آیا، اس لیے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 "من کان حالفاً فلیحلف بالله أو لیصمت".

ترجمہ: ”جو قسم کھانا چاہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔“( بخاری ومسلم)

صحيح البخاري (8/ 137):

"حدثنا فراس، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں