بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹ بولنے کا حکم اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کی شرائط


سوال

ایک اسلامی ادارے میں ہر عمر کی خواتین قرآن سیکھتی ہیں، ان میں شادی شدہ بھی ہیں اورغیرشادی شدہ اسٹوڈنٹس بھی ہیں۔ استاد قرآن کا دو/چار صفحوں کا سبق گھر سے سات/ دس دفعہ پڑھنے کو کہتا ہے جو ہر خاتون نہیں کرسکتی،  لیکن یہ لازم ہے اور رعایت نہیں ملتی، ایسی صورت میں کچھ خواتین جھوٹ بولتی ہیں کہ انھوں نے سبق کی تعداد پوری کی ہے۔ ایسی صورت میں کیا طلبہ گناہ گار ہیں؟

جواب

قرآن و حدیث کی رو سے جھوٹ بولنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ﴾ [سورة الغافر، آية:28]

ترجمہ: اللہ تعالی ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزرجانے والا،  بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔ (بیان القرآن)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ.‘‘

(الصحيح لمسلم ومسند أبي يعلى، ج:11، ص:406، ط:دار المأمون للتراث - دمشق)

 ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: (1) ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، (2)دوسرے یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے اور (3)تیسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ اور خیانت کو مسلمان کی شان کے خلاف بتا یا ہے، ارشاد فرمایا کہ:

’’يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا إِلَّا الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ.‘‘

(مسند أحمد، ج:36، ص:504، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا. وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَة مُسلم قَالَ: «إِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ. وَإِنَّ الْكَذِبَ فُجُورٌ وَإِنَّ الْفُجُورَ يهدي إِلَى النَّار.‘‘

(مشکاة المصابیح، ج:3، ص:1386، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: تم پر سچ کہنا لازم ہے، اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف لے جاتاہے، اور بے شک نیکی جنت تک لے جاتی ہے، اور آدمی برابر سچ کہتارہتاہے اور سچ کی تلاش میں رہتاہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں "صدیق"  (سچائی کے خاص مقام پر)  لکھ دیا جاتاہے۔ اور خبردار تم جھوٹ سے بچ کر رہو ؛ اس لیے کہ جھوٹ گناہ و نافرمانی کی طرف لے جاتاہے، اور گناہ جہنم تک لے جاتاہے، اور آدمی برابر جھوٹ بولتارہتاہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں "کذاب"  (بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتاہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’إِذَا كَذَبَ العَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلاً مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ.‘‘

(سنن الترمذي، ج:3، ص:416، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر خواتین   طالبات اپنے شرعی عذر (ایام) کی وجہ سے قرآنِ کریم کا سبق پڑھنے سے  قاصر ہوں تو استاذ  کو ایسی خواتین کے  ساتھ رعایت کا برتاؤ رکھنا چاہیے؛ تاکہ جھوٹ بولنے کی نوبت ہی پیش نہ آئے۔ البتہ خواتین کا مرد استاذ کے سامنے اپنے شرعی عذر (ایام) وغیرہ کا صاف الفاظ میں تذکرہ کرنا حیا کے خلاف ہے، گول مول الفاظ اور  کنایہ میں بتادیا جائے؛ تاکہ استاذ سمجھ جائے۔ اور اگر کوئی خاتون شرعی عذر کے علاوہ کسی اور وجہ سے مقررہ سبق نہ پڑھ سکے تو سچ بتا کر استاذ  سے معافی مانگ لے، ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے اور گناہ کا باعث بھی ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے لیے گھر سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کرنے کی کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی لازم ہے، اور جہاں یہ شرائط مفقود ہوں گی،  وہاں خواتین کا تعلیم کے لیے جانا ناجائز ہوگا، وہ شرائط درج ذیل ہیں:

  1. خواتین کی تعلیم گاہیں صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں،مخلوط تعلیم نہ ہو اور  مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا ہرگز نہ ہو، نیز ان کا جائے وقوع فتنہ فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔
  2. ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
  3. نیک کردار اور پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو  ضروری علوم کی تعلیم کے لیے مجبورًا نیک، صالح، سن رسیدہ اور قابلِ اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس دیوار اور پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں، کسی  مرحلے میں بلاحجاب ان سے آمنا سامنا نہ ہو اور نہ ہی براہِ راست تعلق ہو، اور ان کی کڑی نگرانی  کی جائے۔
  4. اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مرد استاذ  سریلی آواز میں نہ  پڑھائے، عشقیہ اشعار نہ کہے، غیر ضروری اور غیر درسی باتوں اور ہنسی مذاق  و بے تکلفی  سے  بالکلیہ اجتناب کرے۔
  5. اگر تعلیم گاہ شرعی مسافت پر ہو تو  وہاں جانے کے لیے عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو، اور  ہاسٹل میں  رہائش قطعاً اختیار  نہ  کی  جائے۔
  6. آمد و رفت کے وقت خواتین ایسی بڑی چادر، برقعہ وغیرہ میں لپٹی ہوئی ہوں کہ لوگوں کی توجہ ان کی طرف مائل نہ ہو، بناؤ سنگھار اور خوشبو لگا کر نہ نکلیں، ان کی چال ایسی نہ ہو کہ فتنہ کا سبب بن جائے۔
  7. ان اداروں میں تعلیم دلانے سے ان کے عقائد اور دینی اعمال واخلاق خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اگر کسی جگہ ضروری دینی یا عصری تعلیم دی جاتی ہو تو وہاں خواتین کو تعلیم دلانا اور خواتین کے لیے اپنے شوہر یا سرپرست کی اجاز ت سے جانا جائز اورمباح ہوگا، بصورتِ دیگر ناجائز ہوگا۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’(قوله: الكذب مباح لإحياء حقه) كالشفيع يعلم بالبيع بالليل، فإذا أصبح يشهد ويقول: علمت الآن، وكذا الصغيرة تبلغ في الليل وتختار نفسها من الزوج وتقول: رأيت الدم الآن. واعلم أن الكذب قد يباح وقد يجب والضابط فيه كما في تبيين المحارم وغيره عن الإحياء: أن كل مقصود محمود يمكن التوصل إليه بالصدق والكذب جميعا، فالكذب فيه حرام، وإن أمكن التوصل إليه بالكذب وحده فمباح إن أبيح تحصيل ذلك المقصود، وواجب إن وجب تحصيله كما لو رأى معصوما اختفى من ظالم يريد قتله أو إيذاءه فالكذب هنا واجب وكذا لو سأله عن وديعة يريد أخذها يجب إنكارها، ومهما كان لا يتم مقصود حرب أو إصلاح ذات البين أو استمالة قلب المجني عليه إلا بالكذب فيباح، ولو سأله سلطان عن فاحشة وقعت منه سرا كزنا أو شرب فله أن يقول: ما فعلته، لأن إظهارها فاحشة أخرى، وله أيضا أن ينكر سر أخيه، وينبغي أن يقابل مفسدة الكذب بالمفسدة المترتبة على الصدق، فإن كانت مفسدة الصدق أشد، فله الكذب، وإن العكس أو شك حرم، وإن تعلق بنفسه استحب أن لا يكذب وإن تعلق بغيره لم تجز المسامحة لحق غيره والحزم تركه حيث أبيح، وليس من الكذب ما اعتيد من المبالغة كجئتك ألف مرة لأن المراد تفهيم المبالغة لا المرات فإن لم يكن جاء إلا مرة واحدة فهو كاذب اهـ ملخصا ويدل لجواز المبالغة الحديث الصحيح «وأما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه». قال ابن حجر المكي: ومما يستثنى أيضا الكذب في الشعر إذا لم يمكن حمله على المبالغة كقوله: أنا أدعوك ليلا ونهارا، ولا أخلي مجلسا عن شكرك، لأن الكاذب يظهر أن الكذب صدق ويروجه، وليس غرض الشاعر الصدق في شعره، وإنما هو صناعة وقال الشيخان يعني الرافعي والنووي بعد نقلهما ذلك عن القفال والصيدلاني: وهذا حسن بالغ اهـ (قوله: قال) أي صاحب المجتبى وعبارته: قال عليه الصلاة والسلام: «كل كذب مكتوب لا محالة إلا ثلاثة؛ الرجل مع امرأته أو ولده والرجل يصلح بين اثنين والحرب فإن الحرب خدعة» ، قال الطحاوي وغيره: هو محمول على المعاريض، لأن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق، قال تعالى: {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]، و قال عليه الصلاة والسلام: «الكذب مع الفجور وهما في النار» ولم يتعين عين الكذب للنجاة، قلت: ويؤيده ما ورد عن علي وعمران بن حصين وغيرهما: «إن في المعاريض لمندوحة عن الكذب» وهو حديث حسن له حكم الرفع، كما ذكره الجراحي، وذلك كقول من دعي لطعام: أكلت. يعني أمس، وكما في قصة الخليل عليه الصلاة والسلام، وحينئذ فالاستثناء في الحديث لما في الثلاثة من صورة الكذب، وحيث أبيح التعريض لحاجة لا يباح لغيرها لأنه يوهم الكذب، وإن لم يكن اللفظ كذبا قال في الإحياء نعم المعاريض تباح بغرض حقيقي كتطييب قلب الغير بالمزاح كقوله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل الجنة عجوز» وقوله: «في عين زوجك بياض» وقوله: «نحملك على ولد البعير» وما أشبه ذلك. (قوله: جاز الكذب) بوزن علم مختار أي بالكسر فالسكون قال الشارح ابن الشحنة: نقل في البزازية: أنه أراد به المعاريض لا الكذب الخالص، (قوله: وأهل الترضي) ليحترز به عن الوحشة والخصومة شارح كقوله: أنت عندي خير من ضرتك أي من بعض الجهات، وسأعطيك كذا أي إن قدر الله تعالى.‘‘

(رد المحتار على الدر المختار، ج:6، ص:427، ط:دار الفكر-بيروت)

العناية شرح الهدايةمیں ہے:

’’وليس للحائض والنفساء الجنب قراءة القرآن لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئا من القرآن» وهو حجة على مالك) فإنه يجوزها للحائض لكونها معذورة محتاجة إلى القراءة عاجزة عن تحصيل الطهارة، بخلاف الجنب فإنه قادر عليه بالغسل أو التيمم (وهو) أي الحديث (بإطلاقه) أي بعمومه؛ لأن شيئا نكرة في سياق النفي (يتناول ما دون الآية) فتمنع عن قراءته كالآية فيكون حجة على الطحاوي في إباحة قراءة ما دون الآية للحائض والنفساء والجنب مستدلا بأن المتعلق بالقرآن حكمان: جواز الصلاة، ومنع الحائض عن القراءة، ثم في أحد الحكمين يفصل بين الآية وما دونها فكذلك في الحكم الآخر. وقال الكرخي: يمنع عن قراءة ما دون الآية أيضا على قصد قراءة القرآن، كما يمنع عن قراءة الآية التامة؛ لأن الكل قرآن، فإن لم يقصد القراءة نحو أن يقرأ الحمد لله شكرا للنعمة فلا بأس به. وذكر الحلواني عن أبي حنيفة: لا بأس للجنب أن يقرأ الفاتحة على وجه الدعاء. قال الهندواني: لا أفتي بهذا وإن روي عنه، وقيل: المختار الجواز. (وليس لهم) أي للحائض والنفساء والجنب (مس المصحف إلخ) ظاهر. وقوله: (لقوله عليه الصلاة والسلام) رواه مالك في الموطإ والدارقطني وأبو بكر الأثرم. فإن قلت: ما بال المصنف لم يستدل بقوله تعالى: {إنه لقرآن كريم} [الواقعة: 77] {في كتاب مكنون} [الواقعة: 78] {لا يمسه إلا المطهرون} [الواقعة: 79] فإنه ظاهر في النهي عن مس المصحف لغير الطاهر. قلت: لأن بعض العلماء حمله على الكرام البررة فكان محتملا فترك الاستدلال به.‘‘

(باب الحيض والاستحاضة، ج:1، ص:167، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’وحيث أبحنا لها الخروج فإنما يباح بشرط عدم الزينة وتغيير الهيئة إلى ما يكون داعية لنظر الرجال والاستمالة. قال الله تعالى - {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى} [الأحزاب: 33]- اهـ‘‘

(رد المحتار على الدر المختار، ج:3، ص:604، ط:دار الفكر-بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں