بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جھوٹ اور ایمان جمع ہوسکتے ہیں؟


سوال

میں نے ایک حدیث سنی ہے جس کی وضاحت درکار ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی (مسلمان)میں دو باتیں مشترک نہیں ہوسکتیں،  یا تو اس میں ایمان ہوگا اور جھوٹ نہیں بولے گا یا وہ جھوٹ بولے گا تو اس میں ایمان نہیں ہوگا۔

جواب

یہ مفہوم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے کلام سے ثابت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:

 وسمعت أبا بكر يقول:"يا أيها الناس إياكم والكذب، فإن الكذب مجانب للإيمان".

(مسند أحمد، مسند أبي بكر الصديق رضي الله تعالى عنه، الرقم: 16، 1: 175، دار الحديث القاهرة، ط: الأولى، 1416ھ)

ترجمہ:راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتےہوئے سنا:اے لوگو!جھوٹ سے بچو! کیوں کہ جھوٹ ،ایمان كو دور كر ديتا ہے۔

یہ موقوف  روایت ہے، یعنی صحابی کا قو ل ہے، جوصحیح سند سے ثابت ہے،اور  اس قول کی تشریح یہ ہے کہ مومن میں ایمان اور جھوٹ جمع نہیں ہو سکتے؛ کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے منافی اور مخالف ہیں، اور جھوٹ آہستہ آہستہ مومن کو ایمان سے دور کر دیتا ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ تعالی( 179ھ) اپنی کتاب"الموطا" میں صفوان بن سلیم سے روایت نقل فرماتے ہیں:

"قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أيكون المؤمن جبانا؟ فقال: نعم!، فقيل له: أيكون المؤمن بخيلا؟، فقال: نعم!، فقيل له: أيكون المؤمن كذابا؟ فقال: لا".

(الموطأ لمالك، كتاب الكلام، باب ما جاء في الصدق والكذب، الرقم: 19، 2: 990، دار إحياء التراث العربي، س: 1406ه)

ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا  کہ کیا مؤمن بزدل ہو سکتا ہے؟  آپ نے فرمایا: جی ہاں! پھر پوچھا گیا  کہ کیا مؤمن  بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں! پھر سوال ہوا کہ کیا مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا : نہیں۔

حافظ المغرب ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالی(463ھ) "التمهيد" میں فرماتے ہیں:

"قال أبو عمر:" لا أحفظ هذا الحديث مسندا بهذا اللفظ من وجه ثابت، وهو حديث حسن، ومعناه أن المؤمن لا يكون كذابا، يريد أنه لا يغلب عليه الكذب حتى لا يكاد يصدق، هذا ليس من أخلاق المؤمنين".

( التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد لابن عبد البر، باب الصاد، الحديث السابع، 16: 253، وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية، عام النشر: 1387ه)

ترجمہ:ميں اس حديث كواس لفظ کے ساتھ صحیح سند سے مرفوعاً( آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول) نہیں پاتا، (لیکن) یہ حدیث حسن  ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا، یعنی اس پر جھوٹ اس قدر غالب نہیں ہو سکتا کہ اسے جھوٹا کہا جا سکے؛ کیوں کہ یہ مومن کے اخلاق میں سے نہیں ہے۔

اس طرح كے اقوال ديگر   صحابہ كرام رضوان الله  عنہم اجمعين سے بھی منقول ہیں، امام دار قطنی رحمہ اللہ تعالی ( 385ھ) ان تمام روایات  كو نقل کرنے بعد فرماتے ہیں:

" والصحيح منه قول من وقفه".

جن حضرات نے موقوف نقل  کیا ہے وہی  صحيح  ہے۔

( العلل الواردة في الأحاديث النبوية للدارقطني، سلمان الفارسي عن أبي بكر رضي الله تعالى عنه، الرقم: 50، 1: 258، دار طيبة، ط: الأولى، 1405ه) 

واضح رہے کہ ایسی احادیث جو صحابہ سے موقوفًا (یعنی صحابی کے قول کے طور پر)  منقول ہوں، اور ان  روایات کا تعلق عقل وقیاس،اور اجتہاد ورائے سے نہ ہو تو  وہ حكمًا مرفوع (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب) ہوتی ہیں، بشرطیکہ  وہ ايسے صحابی  سے منقول  نہ  ہوں جو اسرائيلی  روایات نقل کرنے میں معروف  ہوں،  لہٰذا یہ روایت  بھی  ان ہی احادیث میں سے  ہے۔

حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی( 902ھ) " المقاصد الحسنة"ميں فرماتے ہیں:

"ومع ذلك فهو مما يحكم له بالرفع على الصحيح؛ لكونه مما لا مجال للرأي فيه."

( المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الكاف، ص: 503، دار الكتاب العربي، بيروت، ط: الأولى، 1405ه)

ترجمہ:باوجود اس کے کہ یہ روایت موقوف ہے، لیکن اس پر مرفوع کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن میں عقل وقیاس کا کوئی دخل نہیں۔

خلاصہ:

حاصل كلام یہ ہے کہ   یہ حدیث موقوفًا(  صحابی کا قول) صحیح سندوں سے ثابت ہے، لیکن معناً اور حکماً مرفوع( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول) ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں