بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی تاریخِ پیدائش لکھنے، لکھوانے پر زندگی بھر گناہ ہونے کے متعلق حکم


سوال

اسکول میں بچوں کو داخل کرتے وقت بچوں کی اصل تاریخ پیدائش نہیں لکھی جاتی بلکہ اساتذہ حساب لگا کر یا سرپرست کے کہنے پر کم لکھتے ہیں،  کیا ساری عمر یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جان بوجھ کر  کسی بھی شخص کااپنی یا کسی اور کی  اصلی عمرکی بجائے کم یازیادہ عمرلکھنا، جھوٹ میں داخل  ہے جوکہ ناجائز ہے؛ اس لیے جان بوجھ کرتاریخِ پیدائش میں غلط اندراج کروانے سے اجتناب کرنا  ضروری ہے ،وگرنہ کسی بھی موقع پر صحیح تاریخِ پیدائش لکھنے کی نوبت آئے گی تو  جھوٹ لکھنا  لازم آئے گا ،اورحدیث شریف میں جھوٹ  کی سخت ممانعت آئی ہے، لہذا اپنے بچے کی صحیح عمر معلوم ہونے کی صورت میں صحیح عمر  لکھوانا ضروری ہے۔ہاں اگر معلوم نہ ہو تو پھر اندازہ کر کے لکھنے کی اجازت ہوگی۔ 

مرقاة المفاتيح  میں ہے :

"(وإياكم والكذب) بفتح فكسر وفي نسخة بكسر فسكون والأول هو الأفصح ( «فإن الكذب يهدي إلى الفجور» ) : بضم الفاء أي: الميل عن الصدق والحق والانبعاث في المعاصي، وهو أظهر للمقابلة بالبر. وفي القاموس: فجر: فسق، وكذب وكذب وعصى وخالف." 

(كتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغيبة والشتم، ج:7، ص:3030، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں