بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی قسم کا کفارہ


سوال

اگر آپ کسی بڑی مجبوری کی وجہ سے اللّٰہ کی جھوٹی قسم کھا لیں یعنی قسم نہ کھا تے تو گھر والوں کی عزت اور آپ کی زندگی تباہ ہو جاتی تو کفارہ کیسے کریں؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر گزشتہ زمانے کی کسی بات یا واقعے پر جھوٹی قسم کھائی جائے تو یہ"یمینِ غموس"  کہلاتی ہے، یعنی ایسی قسم کی بنا  پر انسان گناہ کے سمندر  میں ڈوب جاتا ہے، یہ اس قدر سنگین گناہ ہے کہ اس کا مستقل کفارہ نہیں، لیکن توبہ واستغفار ضروری ہے، اور اگر ایسی قسم کے ذریعے کسی کا جانی یا مالی نقصان کیا ہو تو اس کی تلافی بھی واجب ہے،  لہٰذا صوتِ مسئولہ میں سائل کے لیے کسی بھی بڑی مجبوری کی وجہ سے اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا جائز نہیں تھا، اگر اس نے جھوٹی قسم کھالی ہے تو اسے چاہیے کہ  وہ  سچی پکی توبہ اور استغفار کریں اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے سخت پرہیز کریں، اگروہ سچی پکی توبہ کریں گے تو ان شاء اللہ ان کا گناہ معاف ہوجائے گا اور آخرت میں اس جھوٹی قسم پر کوئی موٴاخذہ نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وھي أي: الیمین باللہ تعالی … غموس تغمسه فی الإثم ثم فی النار، وھي کبیرة مطلقاً … إن حلف علی کاذب عمداً … کو اللہ ما فعلت کذ عالماً بفعله أو … کواللہ ما له علي ألف عالماً بخلافه وواللہ إنه بکر عالماً بأنه غیرہ … ویأثم بھا فتلزمه التوبة."

(کتاب الأیمان،3/ 705، ط: سعید) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں