بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی حاضری لگانے والے ملازم کے ساتھ کھانا کھانا


سوال

میرے ساتھ نوکری میں ایک شخص ہے جو اپنے کام میں کوتاہی کرتا ہے یعنی بغیر اطلاع چھٹیاں کرتا ہے اور بغیر آئے حاضری لگاتا ہے، اگر ادارے کے ذمہ داران کو اس بات کی اطلاع دی جائے تو اس کی تنخواہ سے کٹوتی بھی کی جائے گی، میں کئی مرتبہ سمجھا چکا ہوں،  حتیٰ کہ شکایت بھی لگا چکا ہوں، مگر وہ شخص باز نہیں آتا، میرے لیے شریعت میں کیا حکم ہے کہ اس کا مال حلال ہے یا حرام؟ اور میرے لیے اس کے ساتھ کھانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی بھی ملازم  ملازمت کے مقررہ اوقات میں جائے ملازمت پر  حاضر رہنے سے ہی اُجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا یا تاخیر سے آیا  تو اس   غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   اس معاملہ کا  اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب ملازم  کام نہ کرے تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے، یا جتنی تاخیر سے آئے اس تاخیر کے بقدر  تنخواہ وصول نہ کرے، پھر اگر ادارے کا ضابطہ یہ ہو  کہ چھٹی کرنے کی بناء پر تنخواہ میں کٹوتی ہو گی  تو ملازم کے لیے چھٹی کے دن کی تنخواہ حلال نہیں ہو گی۔

اب صورتِ مسئولہ میں  اگر مذکورہ شخص کی حاضریاں زیادہ ہوں  اور غیر حاضریاں کم ہوں تو  اس کی غالب آمدنی  حلال کہلائے گی اور  اس کا کھانا کھانے کی اجازت ہو گی لیکن اگر اس کی غیر حاضریاں زیادہ ہوں تو اس کی غالب آمدنی حلال نہیں ہو گی اور   اس کا کھانا کھانے کی اجازت نہیں ہو گی، باقی اگر ایک ساتھ کھانا کھانے سے مراد یہ ہے کہ ایک دستر خوان پر اپنا اپنا کھانا کھایا جائے تو اس کی اجازت ہے، تاہم اگر اس کی اصلاح کے لیے اس کے ساتھ نہ بیٹھا جائے تا کہ اس کو تنبیہ ہو تو ایسا کرنا بھی درست ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". 

(5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"باب ما يجوز من الهجران لمن عصى

أي هذا باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام فمن كان جرمه كثيرًا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان، فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه، كما فعلت عائشة في مغاضبتها مع رسول الله".

( كتاب البر والصلة ، باب ما يجوز  من الهجران لمن عصى ۲۲/ ۲۲۵ ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں