بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹے حلف کا کفارہ کیا ہے؟


سوال

میں نےایک صاحب  جو دوسرے شہر میں رہتے تھے، سے پانچ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا ۔ کاروبار میں شدیدنقصان کی وجہ سے بروقت اَدا نہ کرسکا بلکہ اُس وقت میرے لیے اُس رقم کی ادائیگی مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گئی تھی۔ کیونکہ مجھے مکان تک بیچنا پڑ گیا تھا۔ میں نے اُس شخص سے مہلت مانگی اور گفت و شنید کے بعد قرضے کی ادائیگی کے لیے ماہانا قسط باندھ لی۔قرض کی رقم میں کوئی کمی نہیں کروائی۔ قسطوں کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہر قسط بروقت اَدا کرتا رہا۔ اِس دوران اللہ تعالیٰ نے میرے حالات بھی ٹھیک کر دیے اور میں نے ایک گاڑی بھی خرید لی۔ جب قرضے کی ادائیگی مکمل ہونے کے قریب پہنچ گئی تو میں نے اُن صاحب سے کہا کہ بیٹھ کر حساب کتاب کر لیتے ہیں کیونکہ ادائیگی مکمل ہونے والی ہے۔مگر اُن صاحب نے حساب کتاب کے لیے بیٹھنے کے معاملے کو ٹالنا شروع کر دیا اور اِس دوران ہلکے پھلکے انداز میں اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ میری رقم آپ کے پاس اِتنے عرصے رہی ہے اِس لیے اصل سے زیادہ دو۔ جِس پر میں نے کسی قِسم کی آمادگی کا اِظہار نہیں کیا۔ ایک دن شام کو وہ صاحب میرے گھر آئے ہوئے ہیں اور کہا کہ میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے آیا ہوا ہوں، میری گاڑی خراب ہوگئی ہے ہمیں کسی تقریب میں شرکت کرنی ہے ، مجھے تین چار گھنٹے کے لیے گاڑی چاہیے۔میں نے گاڑی مع ڈرائیور اُن کے حوالے کردی۔ اُنھوں نے تھوڑی دُور جا کر ڈرائیور کو واپس کر دیا کہ جگہ کم پڑے گی میں خود گاڑی ڈرائیو کر لوں گا، اور گاڑی لے گئے۔ مگر دس گھنٹے گذرنے کے بعد بھی و ہ صاحب واپس نہیں آئے۔ مسلسل فون کرنے پر اُن کا فون بند مل رہا تھا۔ جب ٹریکر کمپنی سے معلومات لیں تو معلوم ہوا کہ گاڑی اُن کے گھر پر کھڑی ہوئی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے  کہ یہ صاحب دوسرے شہر میں رہتے ہیں۔ اندازہ ہوگیا کہ اِن کے اِرادے گاڑی واپس کرنے کے نہیں ہیں بلکہ یہ گاڑی روک کر سودے بازی bargaining کرنا چاہتے ہیں۔ اِس موقع پر دوستوں سے مشورہ ہوا کہ کیا کیا جائے؟ طے ہوا کہ Anti-Car Lifting Cell سے رابطہ کیا جائے اور رپورٹ کی جائے کہ ہماری گاڑی چھینی (snatch) گئی ہے، برآمد کرکے دی جائے۔ چنانچہ ہم نے Snatching کی جھوٹی FIR کٹوائی۔ مزید یہ مجھے اِس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ کورٹ FIR کاٹنے کاحکم جاری کرنے سے قبل مجھ سے قرآن پر حلف اُٹھوائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جج نے مجھے قرآن پر حلف دینےکے لیے کہا۔ میری بدبختی کہ میں نے جھوٹا حلف دے دیا جس پر میں اُس وقت سے آج تک شرمندہ ہوتا رہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے استغفار و توبہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ کیا اِس کے اِزالے کی کوئی صورت ممکن ہے ؟

کیا کفارہ ادا کرنے سے اِس کا ازِالہ ممکن ہے ؟

اگر ممکن ہے تو اِس کفّارے کی نوعیت کیا ہوگی اور اِسے کس طرح ادا کرنا ہو گا؟ براہِ کرم رہنمائی کرکے ایک گناہگار کو آتشِ دوزخ سے بچالیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا  قرض دی رقم سے زائد وصولی کے لئے دھوکہ دہی سے گاڑی ہتھیانے کا طرز عمل خلاف شرع تھا، تاہم اپنی گاڑی کی واپسی کے لئے عدالت میں اصل بات چھپاکر غلط بیانی پر حلف اٹھانا یمینِ غموس ہے، جوکہ گناہ کبیرہ ہے، جس پر سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے، تاہم کوئی کفارہ لازم نہیں۔

تنویر الابصار الدر المختار میں ہے:

"(وَهِيَ) أَيْ الْيَمِينُ بِاَللَّهِ لِعَدَمِ تَصَوُّرِ الْغَمُوسِ وَاللَّغْوِ فِي غَيْرِهِ تَعَالَى فَيَقَعُ بِهِمَا الطَّلَاقُ وَنَحْوُهُ عَيْنِيٌّ فَلْيُحْفَظْ. وَلَا يُرَدُّ نَحْوُ هُوَ يَهُودِيٌّ لِأَنَّهُ كِنَايَةٌ عَنْ الْيَمِينِ بِاَللَّهِ وَإِنْ لَمْ يَعْقِلْ وَجْهَ الْكِنَايَةِ بَدَائِعُ (غَمُوسٌ) تَغْمِسُهُ فِي الْإِثْمِ ثُمَّ النَّارِ، وَهِيَ كَبِيرَةٌ مُطْلَقًا، لَكِنَّ إثْمَ الْكَبَائِرِ مُتَفَاوِتٌ نَهْرٌ (إنْ حَلَفَ عَلَى كَاذِبٍ عَمْدًا) وَلَوْ غَيْرَ فِعْلٍ أَوْ تَرْكٍ كَوَاللَّهِ إنَّهُ حَجَزَ الْآنَ فِي مَاضٍ (كَوَاللَّهِ مَا فَعَلْت) كَذَا (عَالِمًا بِفِعْلِهِ أَوْ) حَالٍّ (كَوَاللَّهِ مَا لَهُ عَلَيَّ أَلْفٌ عَالِمًا بِخِلَافِهِ وَاَللَّهِ إنَّهُ بَكْرٌ عَالِمًا بِأَنَّهُ غَيْرُهُ) وَتَقْيِيدُهُمْ بِالْفِعْلِ وَالْمَاضِي اتِّفَاقِيٌّ أَوْ أَكْثَرِيٌّ (وَيَأْثَمُ بِهَا) فَتَلْزَمُهُ التَّوْبَةُ."

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ وَيَأْثَمُ بِهَا) أَيْ إثْمًا عَظِيمًا كَمَا فِي الْحَاوِي الْقُدْسِيِّ.

مَطْلَبٌ فِي مَعْنَى الْإِثْمِ

وَالْإِثْمُ فِي اللُّغَةِ: الذَّنْبُ، وَقَدْ تُسَمَّى الْخَمْرُ إثْمًا. وَفِي الِاصْطِلَاحِ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ اسْتِحْقَاقُ الْعُقُوبَةِ. وَعِنْدَ الْمُعْتَزِلَةِ لُزُومُ الْعُقُوبَةِ بِنَاءً عَلَى جَوَازِ الْعَفْوِ وَعَدَمِهِ كَمَا أَشَارَ إلَيْهِ الْأَكْمَلُ فِي تَقْرِيرِهِ بَحْرٌ (قَوْلُهُ فَتَلْزَمُهُ التَّوْبَةُ) إذْ لَا كَفَّارَةَ فِي الْغَمُوسِ يَرْتَفِعُ بِهَا الْإِثْمُ فَتَعَيَّنَتْ التَّوْبَةُ لِلتَّخَلُّصِ مِنْهُ.

( كتاب الأيمان، ٣ / ٧٠٥ - ٧٠٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں