بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے پر کیا کفارہ لازم ہوگا؟


سوال

ایک شخص اپنے کاغذات کی  درستگی کے  لیے وفاق المدارس کے نام ایک خط میں عہد کرتا ہے کہ: " میں سرکاری ملازمت نہیں کرتا"،   حال آں کہ وہ ملازمت کرتا ہے۔

کاغذات کی درستگی کے لیے وفاق المدارس نے شرط لگائی تھی کہ  بندہ سرکاری ملازم نہ تو اس شرط پر کاغذات درست ہوں گے۔

وہ شخص ابھی تک ملازمت کرتا ہے،  اس صورت میں کفارہ کیا ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹی قسم کھانا ، یا حلف اٹھانا شرعی اصطلاح میں یمین غموس کہلاتا ہے، جوکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جس کی تلافی کا طریقہ صدق دل سے توبہ و استغفار کرنا ہے،  لہذا  صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شخص نے جو کوائف میں تبدیلی کے لئے جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا تھا، اس پر صدق دل کے ساتھ توبہ و استغفار کرے، تاہم تلافی کے طور پر کوئی کفارہ شرعًا لازم نہیں۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله لعدم تصور الغموس واللغو في غيره تعالى فيقع بهما الطلاق ونحوه عيني فليحفظ. ولا يرد نحو هو يهودي لأنه كناية عن اليمين بالله وإن لم يعقل وجه الكناية بدائع (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة.

(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا، وهذا رد على قول البحر ينبغي أن تكون كبيرة إذا اقتطع بها مال مسلم أو آذاه، وصغيرة إن لم يترتب عليها مفسدة، فقد نازعه في النهر بأنه مخالف لإطلاق حديث البخاري «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس» ، وقول شمس الأئمة إن إطلاق اليمين عليها مجاز لأنها عقد مشروع وهذه كبيرة محضة صريح فيه، ومعلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.

وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى (قوله على كاذب) أي على كلام كاذب: أي مكذوب. وفي نسخة: على كذب (قوله عمدا) حال من فاعل حلف: أي عامدا، ... (قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي.

(مطلب في معنى الإثم)

والإثم في اللغة: الذنب، وقد تسمى الخمر إثما. وفي الاصطلاح عند أهل السنة استحقاق العقوبة. وعند المعتزلة لزوم العقوبة بناء على جواز العفو وعدمه كما أشار إليه الأكمل في تقريره بحر (قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه."

( كتاب الايمان، ٣ / ٧٠٥ - ٧٠٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں