بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹا بہتان اگر کسی پر جھوٹا چوری کا الزام لگایا جائے، تو کیا کرنا چاہیے،جس سے عزت بچ جائے/ اور کوئی وظیفہ بتادو جس سے میری بیگناہی ثابت ہوجائے۔


سوال

جھوٹا بہتان اگر کسی پر جھوٹا چوری کا الزام لگایا جائے، تو کیا کرنا چاہیے،جس سے عزت بچ جائے۔

اور کوئی وظیفہ بتادو جس سے میری بے گناہی ثابت ہوجائے۔

جواب

 شرعی ضابطہ  یہ ہے، کہ اگر کوئی شخص کسی پر کوئی دعوی کرے تو مدعی پر شرعی گواہوں کا پیش کرنا لازم ہے، اگر وہ شرعی گواہ پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے تو فیصلہ مدعی کے حق میں ہوتا ہے ،ورنہ مدعا علیہ(جس پر الزام لگایا گیا) پر قسم آتی ہے لہذا زیر نظر  مسئلہ میں اگر مدعی اپنا دعوی اور الزام کو حسب ِضابطہ شریعت  پیش کرنے سے ناکام ہو جائے ،تو ایسی صورت میں مدعا علیہ (سائل) کے قسم اٹھانے سے سائل الزام سے بری ہوجائے گا، لہٰذا سائل فیصل کے سامنے  قسم اٹھا کر اپنی  عزت نفس کی حفاظت کرلیں اور ذیل کی دعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں: 

1-اَللّٰهُمَّ  اسْتُرْنِيْ  بِسِتْرِكَ  الْجَمِيْلِ 

اَللّٰهُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِيْ وَآمِنْ رَوْعَاتِيْ

3- اَللّٰهُمَّ لَا تُخْزِنِيْ فَإِنَّكَ بِيْ عَالِمٌ وَلَا تُعَذِّبْنِيْ فَإِنَّكَ عَلَيَّ قَادِرٌ 

4- اَللّٰهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتِيْ فِي الْأُمُوْرِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ 

جب بھی دعا مانگیں ان میں سے ہر دعا کو کم از کم تین بار پڑھیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلی الله علیه وسلّم قال: ’’لو یعطی الناس بدعواهم لادعی ناس دماء رجال وأموالهم، ولکن الیمین علی المدعی علیه‘‘. رواه مسلم ... عن ابن عباس رضي الله عنه مرفوعًا: لکن البینة علی المدعي والیمین علی من أنکر."

(مشکاة المصابیح، باب الأقضیة والشهادات، 324، ط:قدیمی)


مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وقال النووي: هذا الحدیث قاعدة شریفة کلیة من قواعد أحکام الشرع ففیه أنه لایقبل قول الإنسان فیما یدعیه بمجرد دعواه بل یحتاج إلى بینة أو تصدیق المدعٰی علیه."

(مرقاة المفاتیح، ج:7،ص:250، ط: مکتبة إمدادیة، ملتان)

         اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع".

 

(کتاب الدعویٰ،ج:15، ص:350، ط: إدارۃ القرآن)

مسند أحمد بن حنبل میں ہے:

"عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ الْقُرَشِيِّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو اللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ."

(ذكر بسربن ارطاة، ج:29، ص:171، ط:مؤسسة الرسالة)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا جبير بن أبي سليمان بن جبير بن مطعم قال: سمعت ابن عمر يقول: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يدع هؤلاء الدعوات حين يمسي، وحين يصبح: «اللهم ‌إني ‌أسألك ‌العفو ‌والعافية في الدنيا والآخرة، اللهم أسألك العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي، اللهم استر عوراتي، وآمن روعاتي، واحفظني من بين يدي، ومن خلفي، وعن يميني، وعن شمالي، ومن فوقي، وأعوذ بك أن أغتال من تحتي."

(كتاب الدعاء، باب ما يدعو به الرجل إذا أصبح وإذا أمسى، ج:2، ص:273، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں