بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹ بولنے والے امام کی اقتداء کا حکم


سوال

کیا جھوٹے امام کے پیچھے نماز ہو جائے گی ؟ انتظامیہ میں سے اگر کوئی اپنے امام صاحب کو جھوٹا سمجھتا ہو تو اسے اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ سنی سنائی باتوں کی بنیاد کسی پر جھوٹ کا الزام لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے، احادیث نبویہ میں اس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے:  جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر تو سنی سنائی باتوں کی بنیاد پرامام مسجد کو جھوٹ کا مرتکب سمجھتے ہیں، تو بلاشبہ بغیر ثبوت کسی کے بارے میں منفی رائے قائم کرنا جائز نہیں۔اگر وہ وہ واقعۃ جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہوں مگر تائب ہوگئے ہوں تو پھر بھی ان کے پیچھے نماز جائز ہےا ور اگر ان کی عادت ہی جھوٹ کی ہوتو پھرایسے امام کے  پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

" وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ينبغي لصديق أن يكون لعانا 

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرمي رجل رجلا بالفسوق ولا يرميه بالكفر إلا ارتدت عليه إن لم يكن صاحبه كذلك."

(کتاب الآداب، باب حفظ اللسان، ص:411، ج:2، ط:قدیمی)

حاشیۃ طحطاوی میں ہے:

"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه."

(کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں