بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھینگے کا حکم


سوال

جھینگا کھانا حلال ہے کہ حرام؟

جواب

 جھینگے  کی حلت اورحرمت  کی بنیاد اس بات پرہےکہ یہ مچھلی ہےیا نہیں؟  جولوگ اس کو مچھلی قراردیتے ہیں وہ اس کی حلت کے قائل ہیں،  اورجولوگ اس کو مچھلی قرارنہیں دیتے وہ اس کی حلت کے قائل نہیں ہیں۔   ماہرینِ علم لغت اورعلمِ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی قراردیتے ہیں اوراکثرعلماء کی رائے بھی یہی ہے،ہمارے دارالافتاء کا بھی یہی موقف ہے کہ جھینگا کھاناحلال ہے۔

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"وأما عند الحنفية فيتوقف جوازه علي أنه سمك أو لا۔۔۔۔۔۔۔ فذکر غير واحد من أهل اللغة أنه نوع من السمك ۔۔۔۔۔۔۔ وأفتي غير واحد من الحنفية بجوازه بناءا علي ذلك۔
فلو أخذنا بقول خبراء علم الحيوان فإنه ليس سمكا، فلا يجوز علي أصل الحنفية، ولكن السؤال هنا: هل المعتبر في هذا الباب التدقيق العلمي في كونه سمكا؟ أو يعتبر العرف المتفاهم بين الناس؟ ولا شك أن عند اختلاف العرف يعتبر عرف أهل العرب، لأن استثناء السمك من ميتات البحر إنما وقع باللغة العربية۔۔۔۔۔۔فمن أخذ بحقيقة الإربيان حسب علم الحيوان قال بمنع أكله عند الحنفية، ومن أخذ بعرف أهل العرب قال بجوازه، وربما يرجح هذاالقول بأن المعهود من الشريعة في أمثال هذه المسائل الرجوع إلی العرف المتفاهم بين الناس، دون التدقيق في الأبحاث النظرية، فلا ينبغي التشديد في مسألة الإربيان عند الإفتاء، ولا سيما في حالة كون المسألة مجتهدا فيها من أصلها، ولا شك أنه حلال عند الأئمة الثلاثة، وإن اختلاف الفقهاء يورث التخفيف كما تقرر في محله، غير أن الاجتناب عن أكله أحوط وأولي وأحري."

(تکملة فتح الملهم، کتاب ا الصید والذبائح، باب اباحة ميتات البحر،427/3، دار احياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309101290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں