بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے کے وقت سلام کا حکم


سوال

کھانے کے وقت سلام کرنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ چند مواقع ایسے ہیں جن میں فقہاء  کرام نے  دوسرے کوسلام کرنا مکروہ لکھا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کھانے  میں مشغول ہو یعنی لقمہ منہ میں ہو اس وقت سلام نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں، ہاں اگر لقمہ منہ میں نہ ہو تو سلام کیا جا سکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"سلامك مكروه على من ستسمع … ومن بعد ما أبدي يسن ويشرع۔۔۔۔۔۔۔ودع آكلا إلا إذا كنت جائعا … وتعلم منه أنه ليس يمنع

(قوله إلا إذا كنت إلخ) انظر ما وجه ذلك؟ مع أن الكراهة إنما هي في حالة وضع اللقمة في الفم، كما يظهر مما في حظر المجتبى: یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".

(کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،ج:1،ص:617،سعید)

امدادالفتاوی میں ہے :

"علت کراہت سلام بر آکل عجز ا واز جواب نو شتہ اند  ونزدمن علتِ دیگر احتمال  تشویش یا اغتصاص بہ لقمہ ہم است، پس ہر کجا ہر دو علت مرتفع باشد کراہت ہم نبا شدوایں علت از قواعد فہمید ام نقل یاد ندارم".

(احکام سلام وتعظیم اکابر،ج:4،ص:280،مکتبۃ دارالعلوم کراچی)

ترجمہ:  فقہاء کرام نے کھانے والے کو سلام کرنے کے مکروہ ہونے کی علت اس کا جواب دینے سے عاجز ہونا لکھا ہے۔ اور میرے نزدیک اس کی دوسری علت اس کے تشویش میں مبتلا ہونے یا لقمہ کے حلق میں اٹک جانے کا احتمال بھی ہے، پس جس جگہ یہ دونوں علتیں نہ ہوں وہاں کراہت بھی نہ ہوگی، اور یہ علت میں قواعد سے سمجھا ہوں ، اس کی کوئی نقل صریح میرے پاس نہیں ہے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں