بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھگڑے کے دوران چار مرتبہ طلاق دینے کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران چار مرتبہ کہا"میں نے تمہیں طلاق دی" اور کہا سارے تین مرتبہ طلاق دیتے ہیں میں تمہیں دس مرتبہ دوں گا،اب علاقے کے بڑوں نے اس کو میرے پاس واپس بھیج دیا ہے اور لڑکی کے گھر والے بھی یہی بول رہے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی؛ کیوں کہ لڑکی حمل سےہے اور حمل میں طلاق نہیں ہوتی ، آپ میری اس مسئلہ میں راہنمائی فرمائیں کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح عام حالت میں بیوی کو طلاق دینے سے شرعاً طلاق واقع ہو  جاتی ہےاسی طرح حالتِ حمل میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل نےجب اپنی بیوی کوحالتِ حمل میں  چار مرتبہ یہ الفاظ کہے کہ "میں نے تمہیں طلاق دی"  تو مذکورہ الفاظ کی وجہ سے سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،(چوتھی طلاق لغو شمار ہو گی) اور سائل  پر بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ٹوٹ چکا ہے، اب رجوع جائز نہیں ،  مذکورہ خاتون  اپنی عدت(بچے کی پیدائش تک  ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

قال اللّٰه سبحانه وتعالیٰ :

﴿ وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴾

[ الطلاق ، جزء آیت :۴  ]

وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل"

 (رد المحتار، کتاب الطلاق، 3/ 232ط: سعید )

و فی أحكام القرآن للجصاص :

 فَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ تُوجِبُ إيقَاعَ الثَّلَاثِ مَعًا وَإِنْ كَانَتْ مَعْصِيَةً۔

(1 /529 ، ط: قدیمی)

وفی الفتاوی الھندیہ:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به،  ج:1، ص: 473، ط: مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100716

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں