بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھگڑے کے دوران ساس کو مخاطب کرکے طلاق طلاق طلاق کہنے کا حکم


سوال

2020 میں میرے اور میری بیوی کے تعلقات کچھ خراب ہو  گئے تھے،  پہلے تھوڑے چلتے تھے لیکن کچھ وقت بعد بہت زیادہ خراب رہنے لگے۔ اور ایک دن،  میں ایسے ہی بیٹھا تھا کہ میں نے اپنی بیوی کا موبائل دیکھ لیا کہ اچانک مجھے موبائل میں وہ چیز اور وہ کچھ نظر آیا جو کہ ایک شریف عورت کو زیب نہیں دیتا۔

میں نے خاموشی سے اس بات کو برداشت کیا اور دوسرے دن آفس چلا گیا۔ میں نے کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ کچھ دن بعد میری بیوی نے دوبارہ موبائل کا موضوع نکالا اور بحث کرتی رہی،  میں نے سمجھایا کہ یہ طریقہ غلط ہے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن مستقل بحث کرتی رہی اسی دوران شور سن کر  ان کی والدہ اوپر  آگئیں ( کیوں کہ میں سسرال میں ساتھ رہتا تھا) جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ کی بیٹی کی غلطی ہے، اسے سمجھائیں، جس پر میری بیوی کچن میں چلی گئی، اور ساس مجھے سنانے اور جھگڑنے لگیں کہ آٹھ مہینےسے تم نے تنگ کیا ہوا ہے، جینا حرام کیا ہوا ہے، جھگڑتے ہو، تنگ کرتے ہو، لوگوں میں ہمیں ذلیل کروادیا ہے، جس پر میں نے کہا کہ آپ کے دیور کو فون کرکے بلواتا ہوں، پھر معلوم ہوجائے گا کہ کون ذلیل کرواتا ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ تم اب اور ذلیل کرواؤ، بس میرا ان کی والدہ سے مستقل جھگڑا ہوتا رہا،  اسی غصہ میں نے اپنی ساس کو  بول دیا  "طلاق،طلاق،طلاق"،  جب کہ میں نے نہ تو اپنی بیوی کو مخاطب کیا تھا اور نہ ہی ان کا نام لیا تھا، اور نہ وہ میرے سامنے تھی،  اس کے بعد ان کی والدہ نے بیوی کو میرے کچن میں سے بلایا اور کہا چلو جان چھوٹی اور مجھ سے کہا کہ سامان اٹھاؤ اور اپنے بچے اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے.!!

جب کہ  میرے دل میں ذرا بھی انہیں چھوڑنے کا ارادہ نہیں تھا۔

2020 میں جب میری لڑائی ہوئی تھی تو میں نے ڈرانے کے  لیے ان کو کہا تھا کہ میں کورٹ کے ذریعہ لیٹر بھیج دوں گا،ایک  ڈیڑھ  ماہ بعد جب  دل و دماغ ٹھکانہ پہ آیا تو  میں  دو تین مسجدوں کے امام صاحب کے پاس گیا اور معلوم کیا تو پتا چلا کہ ہم میاں بیوی کو علیحدہ کرانے کے  لیے تعویذ   کرائے تھے،اور ان ہی تعویذوں کے زور کی وجہ سے یہ کام ہوگیا، یعنی کہ طلاق ہوگئی؛ کیوں کہ میری ساس مجھے پسند نہیں کرتی تھی، جب کہ خدا گواہ ہے میں انہیں بالکل نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

کیا  ہم دونوں میں یہ طلاق ہوگئی ؟ جب کہ تعویذوں کے زور سے یہ کام ہوا ہے!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل نے اپنی ساس سے بحث مباحثہ کے دوران   " طلاق طلاق طلاق" کے الفاظ جو  ادا  کیے تھے، چوں کہ بحث و مباحثہ کا پس منظر و سبب بیوی کی غلطی تھا، لہذا مذکورہ الفاظ ادا کرنے سے بیوی پر  تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، مذکورہ خاتون سائل پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، رجوع کرنا  جائز نہیں ہے، اور تجدید نکاح کرنا  بھی حرام ہے، الا یہ کہ مذکورہ خاتون عدت مکمل کرنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے، اور وہ حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے، یا عورت خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے، جس کے بعد وہ عدت گزارے،  عدت گزر جانے  کے بعد  باہمی رضامندی سے شرعی طریقہ سے دوبارہ نکاح کرنا جائز  ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز.أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں