بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جسم سے نجاست پاک کرنے کا طریقہ


سوال

1-اگر غسل فرض ہو اور صرف جسم کو دھو لیا جائے اور پاک کپڑے پہنے جائیں توکیا کپڑے پاک رہیں گے؟

2-اگر احتلام ہو جائے اور استنجا  کیے بغیر صرف کلی اور ناک میں پانی ڈال کر سارے جسم پر پانی بہایا جائے تو غسل ہو جا ئے گا؟

3-اگر جسم کے کسی حصے پر نجاست لگی ہو تو کتنا پانی بہایا جائے پاک ہو جائے گا؟

4-کنگھی کو پاک کیسے کریں؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  غسل فرض ہونے کے بعد جسم پرلگی ہوئی  نجاست کو پانی سے اچھی طرح دور کرنے کے بعد غسل کیے بغیر صاف کپڑے پہنے جائیں توکپڑے پاک رہیں گے۔

2۔احتلام ہونے کےبعد استنجاء کیے بغیر اچھی طرح منہ بھر کر کلی کر کے اور ناک میں پانی ڈال کر سارے جسم پر پانی بہایا جائے تو غسل ہوجائے گا، لیکن استنجا  کی سنت رہ جائے  گی۔

3۔جسم پر لگی نجاست اگر نظر آتی ہو تو اس کے عین واثر زائل کرنے سے جسم پاک ہوگا ، عدد کا اعتبار نہیں ہوگا ،اگر نظر نہ آتاہو تو اس کو تین مرتبہ دھونے سے جسم پاک شمار ہوگا ۔

4۔کنگھی پر لگی ہوئی نجاست اگر نظرآتی ہو تو اس کے عین و اثر زائل کرنے سے کنگھی پاک شمار ہوگی،اگر نظر نہ آتی ہو تو اس کو تین مرتبہ پاک پانی سے دھولیا جائے۔

صحیح البخاری میں ہے:

" عن أبي هريرة:أن النبي صلى الله عليه وسلم لقيه في بعض طريق المدينة وهو جنب، فانخنست منه، فذهب فاغتسل ثم جاء، فقال: أين كنت يا أبا هريرة قال: كنت جنبا، فكرهت أن أجالسك وأنا على غير طهارة، فقال: سبحان الله، إن المسلم لا ينجس."

(کتاب الغسل،باب عرق الجنب،ج:1،ص:109،رقم الحدیث:279،ط:دار ابن کثیر)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(وأما) ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة لقوله تعالى {وإن كنتم جنبا فاطهروا} [المائدة: 6]،أي: طهروا أبدانكم."

(کتاب الطھارۃ،فصل الغسل،ج:1،ص:34،ط:مطبعۃ شرکۃ المطبوعات العلمیۃ)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"(الفصل الأول في فرائضه) وهي ثلاثة: المضمضة، والاستنشاق، وغسل جميع البدن على ما في المتون.....وتقديم غسل الفرج في الغسل سنة سواء كان فيه نجاسة أم لا كتقديم الوضوء على غسل باقي البدن سواء كان هناك حدث أو لا. كذا في الشمني."

(کتاب الطھارۃ،الباب الثانی،ج:1،ص:13/14،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"فالظاهر أنه يعطى حكم ما لا ينعصر من تثليث الجفاف. (قوله: بتثليث جفاف) أي: جفاف كل غسلة من الغسلات الثلاث وهذا شرط في غير البدن ونحوه، أما فيه فيقوم مقامه توالي الغسل ثلاثا قال في الحلية۔۔۔۔۔"أن المتنجس إما أن لا يتشرب فيه أجزاء النجاسة أصلا كالأواني المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتيق، أو يتشرب فيه قليلا كالبدن والخف والنعل أو يتشرب كثيرا؛ ففي الأول طهارته بزوال عين النجاسة المرئية أو بالعدد على ما مر؛ وفي الثاني كذلك؛ لأن الماء يستخرج ذلك القليل فيحكم بطهارته۔۔۔۔۔۔"لأن الكلام في غير المرئية أي: ما لا يتشرب النجاسة مما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاثا ولو بدفعة بلا تجفيف كالخزف والآجرالمستعملين كما مر وكالسيف والمرآة ومثله ما يتشرب فيه شيء قليل كالبدن والنعل."

(کتاب الطھارۃ،باب الانجاس،ج:1ص:332،ط:شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509100728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں