شادی میں اگر گانا بجانا ہو تو اس میں شرکت کرنا اور کھانا کھانا کیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کو پہلے سے معلوم ہو کہ شادی میں گانابجانا یا دیگر منکرات ہیں، تو اس میں شرکت کرنا جائز نہیں، اور اگر جانے کے بعد پتہ چلا تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ شخص متقدیٰ ہو اور لوگ اس کی بات مانتے ہوں تو اسے چاہیے کہ صاحب دعوت اور لوگوں کو منکرات سےروکے، اگر لوگ نہ مانیں تو وہاں سے واپس لوٹ آنا چاہئے اور اگر وہ شخص مقتدیٰ نہیں ہے اور لوگوں کو منکرات سے نہیں روک سکتا تو دل سے ان باتوں کا انکار کرے اور کھانا کھاکر فوراً وہاں سے نکل جائے اور آئندہ ایسی دعوت میں حاضر ہی نہ ہو۔
المعجم الكبير للطبراني ميں ہے:
"عن عمران بن حصين قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن إجابة طعام الفاسقين".
(المجعم الکبیر للطبراني،ج:18، ص:168، رقم 376، ط: دار أحیاء)
فتاوی شامی میں ہے:
"(فإن قدر على المنع فعل وإلا) يقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به (وإن علم أولا) باللعب (لا يحضر أصلا) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال. وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام".
وفی الرد:
"(قوله ابن كمال) لم أره فيه نعم ذكره في الهداية قال ط وفيه نظر والأوضح ما في التبيين حيث قال: لأنه لا يلزمه إجابة الدعوة إذا كان هناك منكر اهـ. قلت: لكنه لا يفيد وجه الفرق بين ما قبل الحضور وما بعده، وساق بعد هذا في التبيين ما رواه ابن ماجه «أن عليا - رضي الله عنه - قال: صنعت طعاما فدعوت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فجاء فرأى في البيت تصاوير فرجع» اهـ. قلت: مفاد الحديث أنه يرجع ولو بعد الحضور وأنه لا تلزم الإجابة مع المنكر أصلا تأمل".
(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:348، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100214
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن