بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہری ذکر کا حکم


سوال

 میں ایک درس نظامی کے طالب علم سے گفتگو کررہا تھا، ذکر خفی اور جلی پر بحث تھی، ہمارے گاؤں میں رواج ہے کہ لوگ ختم کا انعقاد کرتے ہیں، میں نے اس سے کہا کہ. یہ اچھا طریقہ ہے کہ لوگ سب مل جل کر اجتماعی طور پر درود شریف کلمہ طیبہ استغفار کا ورد کرتے ہیں، کیونکہ ماحول اتنا خراب ہے لوگ برائیوں کی محفلیں سجاتے ہیں،تو اس بھائی کا کہنا تھا کہ جہرا ذکر کرنا جائز نہیں، صحابہ کرام رض کا طریقہ نہیں انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اس سے منع فرمایا ہے،میں نے کہا چلیں وہ تو ٹھیک ہے مگر دوسروں کی برائیاں کرنے گالم گلوچ کرنے زمینوں پر بے مقاصد مباحثے چرس سگریٹ کی محفلوں سے بہتر تو ہے کہ اللہ کا ذکر تو کررہے ہیں،چاہے آہستہ کریں یا زور سے کریں ، یہ سننا تھا محترم نے بھری محفل میں عزت اتاردی، اور فتوی لگایا کہ آپ منکر صحابہ رض ہو، جب کہ میں تمام صحابہ کرام رض کی عزت کرتا محبت کرتا ہوں، اور ادنی صحابی کی پاؤں کی دھول کے برابر بھی خود کو نہیں سمجھتا ، لیکن موصوف نے فتوی لگادیا، تو کیا ایسے فتوے پر میرے اعمال نمازو دیگر کا کیا حکم ہے، کیا منکر صحابہ رض کا نمازو عبادت کچھ قبول نہیں، میرا دل اس بہتان پر تین دن سے غم زدہ ہے،بارہا دل کیا اس تہمت پر اسے اگلے جہاں سدھاردوں، میں انکار صحابہ کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیونکہ یہ دین کی بنیاد ہے۔

جواب

اصولی اور عمومی طور پر تو تنہائی میں  آہستہ آواز  سے ذکر کرنا بہتر ہے، لیکن  اجتماعی طور پر جہرًا ذکر کرنا بھی شریعتِ  مطہرہ کی رو سے جائز ہے،یوں کہنا کہ کہ جہری ذکر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں اوراس بنیاد پر اس کو    بدعت سمجھنا  یا ناجائز سمجھنا،اور جہری ذکر کے قائل کو منکر صحابہ کہہ دینادرست نہیں ہے، کیوں کہ جہرًا  ذکر کرنے کی اصل  حدیث سے ثابت ہے؛ حدیثِ قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے یاد کرتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں (یعنی چھپ کر آہستہ سے تنہائی میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں (یعنی تنہائی میں جیسے اس کی شان ہے) یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے (یعنی لوگوں کے درمیان جہرًا میرا ذکر کرتا ہے) تو میں اس سے بہتر اور افضل مجمع (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔‘‘

لہٰذا اگر کوئی شخص بآواز بلند ذکر کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے،بہتر یہ کہ کسی متبعِ شریعت، شیخِ  کامل سے اصلاحی تعلق قائم کرکے ان کی تربیت میں اور ان کی  راہ نمائی سے ذکر کیا جائے، رسمی طور پر بلاکسی معتبر مربی کے ایسی مجلسیں منعقد کرنا جہاں حدود کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو، یا ان مجلسوں میں شرکت کو ایسا لازم سمجھنا کہ شریک نہ ہونے والے کو  حقارت کی نظر سے دیکھا جائے یا ان پر جبر کیا جائے، یا ایسی جگہ پر مجلس منعقد کرنا جس سے دیگر عبادات گزاروں کی عبادت میں خلل پڑے، یہ قطعاً جائز نہیں ہے، اس سے احتراز لازم ہے، اسی طرح اگر اسی کو افضل سمجھا جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔

بہر حال مذکورہ شخص کی بات درست نہیں ہے،اور جس مسئلہ سے متعلق آگاہی نہ ہو اس پر گفتگو کرنے سے گریز کرنا چاہیے،چہ جائےکہ بھری مجلس میں ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کی جائے،درست موقف معلوم ہونے پر مطمئن ہونا چاہیےاور اس طرح کی باتوں کو نظرانداز کردینا چاہیے۔

صحيح البخاری میں ہے:

"حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، سمعت أبا صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم."

(کتاب التوحید،‌‌باب قول الله تعالى {ويحذركم الله نفسه}،ج8،ص121،ط؛دار طوق النجاۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في رفع الصوت بالذكر

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ ."

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ،وما یکرہ فیہا،ج1،ص660۔ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں