کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لڑکی کو دیا جانے والے جہیز کا مالک کون ہوتا ہے؟ اور عورت کو شادی میں منہ دکھائی کی شکل میں ملنے والے زیور کا مالک کون ہوتا ہے؟ اور ان زیورات کو بیوی کی اجازت کے بغیر بیچنا کیسا ہے؟
جہیز کا جو سامان لڑکی لاتی ہے، اس سامان کی مالک لڑکی ہوتی ہے، اور شادی کے موقع پر لڑکی کو جو زیور منہ دکھائی کے طور پر دیا جاتا ہے تو وہ زیور بھی لڑکی کی ملکیت ہوتی ہے، لہذا بیوی کی اجازت کے بغیر شوہر کے لیے اس کو فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."
(ج:1 / ص:327، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ط: رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."
(ج:3 /ص:158، باب المہر، ط: سعید)
وفیہ أیضاً:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."
(ج:3/ ص:153، کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502102009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن