بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جُمادى الأولى 1446ھ 04 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کے سامان پرزکات کا حکم


سوال

 ایک لڑکی کی شادی نہیں ہوئی ہو اور گھر والوں نے اس کے لیے جہیز کا سامان رکھا ہو اور اس پر سال بھی گزرا ہو تو آیا اس پر زکوٰۃ ہے کہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکی نابالغ ہے تو جہیز کے لیے رکھے گئے کسی بھی چیز پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور اگر لڑکی بالغ ہے اور یہ چیزیں اس کے قبضے میں نہیں دی گئیں تو ان چیزوں کے مالک خریدنے والے ہیں اس صورت میں  سونا، چاندی، نقدی اور مالِ  تجارت کے علاوہ، جہیز کے سامان وغیرہ پر زکوٰۃ  لازم نہیں ہوتی، اس لیے کہ یہ مالِ  نامی (حقیقتاً یا حکماً بڑھنے والا مال) نہیں ہے، جب کہ زکوٰۃ لازم ہونے کے لیے مالِ  نامی ہونا ضروری ہوتا ہے، اس لیے اگر کسی لڑکی کے لیے  جہیز کا سامان جمع رکھا  ہے تو اس سامان پر زکاۃ لازم نہیں، البتہ اگر   شادی کے لیے  نقد رقم جمع کر رکھی ہے،اور  یہ  نقد رقم   نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر یا اس سے زائد ہے، یا اس  نقد رقم کے ساتھ   سونا، چاندی یا دوسری ضرورت سے زائد رقم ملا کر زکات کا نصاب   بن جاتاہے یا خود باپ صاحبِ نصاب ہے، تو ان صورتوں میں  زکوٰۃ لازم ہوگی ، اور اگر بالغ لڑکی کے قبضہ میں دے دیا تو سامان پر زکوٰۃ واجب نہیں البتہ سونا ، چاندی یا کیش رقم نصاب کے برابر بن جائے تو سال گزرنے پر زکوۃ واجب ہو گی اور اگر پہلے سے صاحب نصاب ہے تو سابقہ نصاب کے ساتھ ان چیزوں کی زکوٰۃ بھی نکالے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها كون النصاب ناميًا) حقيقةً بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرًا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه، وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين: خلقي، وفعلي، هكذا في التبيين. فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لايصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلاً أو نوى النفقة، والفعلي ما سواهما، ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة، ونية التجارة والإسامة لاتعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة، ثم نية التجارة قد تكون صريحًا وقد تكون دلالةً، فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك العقد شراءً أو إجارةً وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو العروض".

(جلد۱، ص:۱۷۴، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں