بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جدہ کے رہائشی کے لئے حج کرنے کا طریقہ


سوال

میں جدہ میں مقیم ہوں اور حنفی مسلک کو فالو کرتا ہوں اس بار حج کا ارادہ ہے مجھے جدہ سے حج کا پورا طریقہ بتا دیں عین کرم ہوگا. 

جواب

جو شخص میقات کی حدود سے باہر رہائش پذیر ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ حج قران کرے یا قران نہ کرسکتا ہو تو حج تمتع کرے،کیونکہ سب سے افضل حج قران ہے، پھر حج تمتع پھر حج افراد ہے، لیکن مکہ، حدود حرم اور حدود میقات کے اندر رہنے والے حج قران یا حج تمتع نہیں کرسکتے ہیں، اس لئے یہ لوگ صرف حج افراد کرسکتے ہیں، آپ چونکہ جدہ میں رہائش پزیر ہیں اور جدہ میقات کی حدود کے اندر واقع ہے اس لئے آپ کو حج افراد کرنا ہوگا۔

حج افراد کا طریقہ یہ ہے کہ حج افراد کرنے والا احرام باندھتے ہوئے صرف حج کی نیت کرے گا،اگر وہ افراد کرنے والا حاجی حدودِ حرم سے باہر سے آیا ہے تو وہ سب سے پہلے طواف قدوم کرے گا، اور اگر حدود حرم میں ہی پہلے سے رہائش پذیر ہے تو اس پر طواف قدوم نہیں ہے (آپ چونکہ حدود حرم کے باہر سے آئیں گے اس لئے آپ طواف قدوم کریں گے)، پھر آٹھ ذو الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد منی جائے گا، وہاں نو ذو الحجہ کی صبح تک رہے گا،نو ذو الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد عرفات جائے گا اور غروبِ آفتاب تک وہاں ٹھہرے گا،غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوگا، رات مزدلفہ میں قیام کرے گا اور فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد منیٰ کے لیے روانہ ہوگا،منیٰ پہنچ کر بڑے شیطان کو کنکریاں مارے گا، اور اس کے بعد حلق کرا کر احرام سے نکل جائے گا، تاہم طوافِ زیارت سے پہلے بیوی اس پر حلال نہیں ہوگی۔اس کے بعد طوافِ زیارت کرنا چاہے تو اسی دن کر لے، ورنہ بارہ ذو الحجہ کی مغرب سے پہلے پہلے تک کسی بھی وقت کر سکتا ہے۔اور اس طواف کے ساتھ  صفا اور مروہ کی سعی بھی کر لے۔ اس کے بعد واپس منیٰ آجائے یا اپنی رہائش پر جانا چاہے تو جا سکتا ہے، تاہم رات منیٰ میں گزارے کہ یہ مسنون ہے۔

اگلے دن گیارہ ذو الحجہ اور اس سے اگلے دن بارہ ذو الحجہ کو زوال کے بعد  تینوں شیطانوں کی رمی کرے۔ زوال سے پہلے رمی کرنا درست نہیں ہے۔ گیارہ ذوالحجہ کی رات بھی منیٰ میں گزارنا مسنون ہے۔بارہ ذو الحجہ کی رمی سے فارغ ہونے کے بعد  اگر وہ حدود حرم سے باہر کا رہائش پذیر ہے تو اس کو اپنے وطن یا شہر واپسی سے پہلے طواف وداع کرنا واجب ہے،اور اگر حدود حرم کا ہی رہائشی ہے تو بارہ ذو الحجہ کی رمی کے بعد اس کا حج مکمل ہو جائے گا۔

الفتاوى الهندية (1/ 239)
القران في حق الآفاقي أفضل من التمتع والإفراد والتمتع في حقه أفضل من الإفراد وهذا هو المذكور في ظاهر الرواية هكذا في المحيط.

وليس لأهل مكة تمتع ولا قران، وإنما لهم الإفراد خاصة كذا في الهداية وكذلك أهل المواقيت ومن دونها إلى مكة في حكم أهل مكة كذا في السراج الوهاج.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 531)
(من الميقات) إذ القارن لا يكون إلا آفاقيا 
(قوله إذ القارن لا يكون إلا آفاقيا) أي والآفاقي إنما يحرم من الميقات أو قبله، ولا تحل مجاوزته بغير إحرام؛ حتى لو جاوزه ثم أحرم لزمه دم ما لم يعد إليه محرما كما سيأتي في باب مجاوزة الميقات بغير إحرام ح.
والحاصل أنه يصح من الميقات وقبله وبعده، لكن قيد به لبيان أن القارن لا يكون إلا آفاقيا. قال في البحر وهذا أحسن مما في الزيلعي من أن التقييد بالميقات اتفاقي

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 536)
الحادي عشر: أن يكون من أهل الآفاق والعبرة للتوطن، فلو استوطن المكي في المدينة مثلا فهو آفاقي وبالعكس مكي، ومن كان له أهل بهما واستوت إقامته فيهما فليس بمتمتع وإن كانت إقامته في إحداها أكثر لم يصرحوا به. قال صاحب البحر: وينبغي أن يكون الحكم للكثير، وأطلق المنع في خزانة الأكمل. اهـ.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں