میں نے اپنی ماں کو ایک لڑکی کے بارے میں بتایا تھا کہ جس وقت بھی اس لڑکی کے سا تھ میرا نکاح ہو تو میری طرف سے اس کو تین طلاقیں ہیں، کیونکہ میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا، ابھی اسی لڑکی سے میرا نکاح ہوا ہے، اب وہ میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں تو ہم کو کیا کرنا چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں نکاح ہوتے ہی تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،نکاح ٹوٹ چکا ہے اور حرمت مغلظہ کے ساتھ وہ حرام ہوگئی ہے، دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔
البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:
"وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح، مثل أن يقول لامرأة إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق
م: (وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح، مثل أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق، أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق) ش: وبه قال عمر بن الخطاب وعبد الله بن مسعود وعبد الله بن عمر وأبو بكر بن عمرو بن حزم وأبو بكر بن عبد الرحمن وشريح والزهري وسعيد بن المسيب والنخعي والشعبي ومكحول وسالم بن عبد الله وعطاء وحماد بن أبي سليمان في آخرين، وهو قول مالك وربيعة والأوزاعي والقاسم وعمر بن عبد العزيز وابن أبي ليلى، لكن قالوا: هذا إذا لم يعين بل عين امرأة أو قال: كل امرأة أتزوجها من بني تميم أو بني أسد."
(کتاب الطلاق، باب الایمان فی الطلاق، ج:5، ص:410، ط:دار الکتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101370
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن