بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

جاز کیش اکاؤنٹ سے کسی نے پیسے نکلوائے پھر قرض لینے کی صورت میں قرض کی واپسی کا حکم


سوال

کچھ دن قبل کسی دھوکے باز نے میرے جاز کیش اکاؤنٹ سے 16 ہزار روپے، جو کہ میں نے تھوڑے تھوڑے کر کے جمع کئے تھے، دھوکے سے نکلوائے ، ان 16 ہزار کے ساتھ ساتھ اس نے 2 ہزار روپے میرے نام پر کمپنی والوں سے قرض منگوا کر وہ بھی نکلوائے ،اب چوں کہ اکاؤنٹ میرے نام پر ہے تو وہ 16 ہزار روپے تو میرے چلے گئے لیکن وہ قرض کے 2 ہزار روپے 100 روپے ٹیکس سمیت میرے ذمے رہتے ہیں ۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اگر میں یہ اکاؤنٹ چھوڑ کر دوسرا اکاؤنٹ کھلوا لوں ، کیوں کہ کمپنی والوں نے تو یہ پیسے بہر حال میرے سے لینے ہیں تو کیا ایسا کرنا میرے لئے جائز ہے یا مجھے یہ پیسے کمپنی والوں کو واپس کرنے ہیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ اکاؤنٹ جو سائل کے نام پر  ہے ، مذکورہ دھوکہ باز شخص نے سائل سے دھوکہ کرکے اکاؤنٹ سے متعلق معلومات لے کر یہ رقم بطورِ قرض کمپنی سے منگوائی تو چوں کہ تمام معلومات سائل نے ہی فراہم کی ہے ،لہذا اس رقم کی ادائیگی کا ذمہ دار سائل ہے ، الغرض کمپنی سے لیا گیا مذکورہ قرض سائل کو واپس کرنا لازمی ہے،باقی اگر سائل یہ اکاؤنٹ چھوڑ کر دوسرا اکاؤنٹ کھولنا چاہے تو کھول سکتا ہے۔

"سنن الكبرى للبيهقي"  میں ہے:

"ويروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:  ‌كل ‌أحد ‌أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين."

(‌‌‌‌كتاب النفقات، باب نفقة الأبوين، ج:7، ص:790، ط:العلمية)

"مشكاة المصابيح"میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ‌ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"مجلة الأحكام العدلية" میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة، المادة:97، ج:1، ص:51، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب آرام باغ كراتشي)

"العقود الدرية فی تنقيح الفتاوى الحامدية"   میں ہے:

"الديون تقضى بأمثالها."

(کتاب المداینات، ص:227، ج:2، ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں