بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاز میں بچے ہوئے کھانے کا حکم


سوال

 میں ایک جہاز کمپنی میں کام کرتا ہوں، جہاں پیسنجر ٹریول کرتے ہیں، ہم نیچے گراؤنڈ پر کام کرتے ہیں، ہمیں اوپر جہاز کے اندر جانا منع ہے، لیکن پھر بھی ہم لوگ جاتے ہیں اور کھانے کی چیزیں اٹھاتے ہیں، مجھے ایک جگہ سے پتہ چلا کہ جو کھانا ضائع ہوسگتا ہے وہ آپ کھا سکتے ہیں، اب میں یہی جاننا چاہتاہوں کیا جو ضائع ہوجائے والا کھانا ہے وہ ہم کھا سکتے ہیں، لیکن اوپر جانا منع ہے اوپر جاکر کھانا جو انہوں نے بعد میں ضائع کر دینا  ہےوہ ہم کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جہاز میں بچا ہوا کھانا انتظامیہ سے اجازت لے کر کھا سکتے ہیں،اجازت کے بغیر کھانا کھانا جائز نہیں، اگر انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلے میں چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے تب بھی کھانے کی گنجائش ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أبو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا سليمان بن بلال، عن سهيل بن أبي صالح، عن عبد الرحمن بن سعيد،عن أبی حمید الساعدی ،أن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  قال:"لا یحل لامرئ أن یأخذ مال أخیہ بغیر حق، و ذلک لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم .وفي رواية: لا يحل للرجل أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفسعن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه " وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم.وقال عبيد بن أبي قرة: حدثنا سليمان، حدثني سهيل، حدثني عبد الرحمن بن سعيد، عن أبي حميد الساعدي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل للرجل أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفسه " وذلك لشدة ما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم من مال المسلم على المسلم". 

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: ۳۹، صفحہ: ۱۸ ،۱۹، رقم الحدیث:23605، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(إلا في مسائل مذكورة في الأشباه):.... والأصل في جنس هذه المسائل كل عمل لا يتفاوت فيه الناس تثبت الاستعانة من كل أحد دلالة، وإلا فلا. وفي القنية: أخذ أحد الشريكين حمار صاحبه الخاص، وطحن به فمات لم يضمن للإذن دلالة قال عرف بجوابه هذا أنه لا يضمن فيما يوجد الإذن دلالة، وإن لم يوجد صريحا كما لو فعل بحمار ولده أو بالعكس، أو أحد الزوجين أو أرسل جارية زوجته في حاجته فأبقت اه".

(مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج: ۶، صفحہ: ۲۰۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں