بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جائے نماز پر کعبہ کی تصویر بنی ہو تو اس پر نماز پڑھنے کا حکم / تفاعلی جائے نماز پر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

۱۔ آج کل بازار میں اور گھر میں ایسی جائے نماز ہوتی ہیں جن پر خانہ کعبہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  اور دیگر مقدس مقامات بنے ہوئے ہوتے ہیں، ایسی جائے نماز پر نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟

۲۔ نیز بچوں اور نو مسلموں کا تفاعلی جائے نماز (Interactive Prayer Mat) پر نماز سیکھنا کیسا ہے ؟

جواب

۱۔ واضح رہے کہ جائے نماز پر کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس کی تصویر بنی ہوئی ہو ، اور نماز کے دوران ان تصاویر کی وجہ سے خشوع اور خضوع متاثر نہ ہو تو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کعبہ یا مسجد نبوی کی تصویر پر پاؤں نہ لگے، اس لیے کہ اس میں بے ادبی کا پہلو ہے، اور اگر ان تصاویر کی وجہ سے ذہن بٹ جاتا ہو اور نماز کے دوران خشوع اور خضوع میں خلل اور کمی آتی ہو تو ایسی تصاویر والی جائے نمازوں پر نماز پڑھنے سے اجتناب مناسب ہے،مزید یہ کہ غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان تصاویر کی عبادت کرتے ہیں، اس لیے جائے نماز سادہ ہونا زیادہ بہتر ہے۔

۲۔ اگر کسی کو نماز سیکھنی ہو، خواہ نو مسلم ہو یا بچہ ہو تو وہ تفاعلی جائے نماز کے بجائے کسی معلم سے یا مستند کتابوں کے ذریعے نماز کو سیکھے، لیکن اگر نماز سے خارج تفاعلی جائے نماز سے نماز سیکھی جائے اور اس کا طریقہ بھی مستند ہو یعنی مستند مفتیان کرام کی تصدیق ہو تو اس سے سیکھنے کی گنجائش ہے، اور اگر غیر مستند طریقہ ہو تو اس سے احتراز کرنا ضروری ہے، نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز کے دوران اگر خارجِ نماز کسی انسان یا غیر انسان سے نماز کے کسی بھی فعل میں مدد لی جائے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اس تفاعلی جائے نماز پر کھڑا ہو کر نماز شروع کرے اور نماز کے دوران وہ شخص نماز کے کسی فعل میں اس جائے نماز سے مدد لے لے، یعنی قراءت یا تسبیحات وغیرہ اس سے سن کر پڑھ لیتا ہے تو اس سے نماز فاسد ہوجائے گی۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال: جائے نماز پر خانہ کعبہ کی تصویر ہے، اس پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ آیا اس تصویر کو دوسرا کپڑا چڑھا کر چھپا دیا جائے یا کیا کیا جائے؟ اگر فروخت کرتے ہیں تو چوتھائی قیمت ملتی ہے اور مسجد کا نقصان ہے۔
الجواب حامداً ومصلیاً: صورتِ مسئولہ میں ان مصلوں پر نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، نہ ان پر کپڑا چڑھانے کی ضرورت ہے، نہ ان کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے، وفي غنية المستملي: "وأما صورة غىر ذي روح، فلا خلاف في عدم كراهة الصلاة عليها أو إليها۔"، ص: 314۔‘‘

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثانی فیما یکرہ الصلاۃ، ج: ۶، ص: ۶۷۱، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

کنز الدقائق میں ہے:

"ولبس ثوب فيه تصاوير وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو بحذائه صورةً إلا أن تكون صغيرة أو مقطوعة الرأس أو لغير ذي روح.

وفي شرحه تبيين الحقائق: (أو لغير ذي روح) أي أو ‌كانت ‌الصورة ‌غير ‌ذي ‌الروح مثل أن تكون صورة النخل وغيرها من الأشجار؛ لأنها لا تعبد عادة وعن ابن عباس أنه رخص في تمثال الأشجار."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 166، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"وإن فتح المصلي على غير إمامه فسدت صلاته لأنه تعليم وتعلم، فكان من جنس كلام الناس، إلا إذا نوى التلاوة، فإن نوى التلاوة لا تفسد صلاته عند الكل، وتفسد صلاة الآخذ، إلا إذا تذكر قبل تمام الفتح، وأخذ في التلاوة قبل تمام الفتح فلا تفسد، وإلا فسدت صلاته، لأن تذكره يضاف إلى الفتح.

قال ابن عابدين: إن حصل التذكر بسبب الفتح تفسد مطلقا، سواء أشرع في التلاوة قبل تمام الفتح أم بعده، لوجود التعلم، وإن حصل تذكره من نفسه لا بسبب الفتح لا تفسد مطلقا، وكون الظاهر أنه حصل بالفتح لا يؤثر بعد تحقق أنه من نفسه، ويشمل هذا إذا كان المفتوح عليه مصليا أو غير مصل، وإن سمع المؤتم ممن ليس في الصلاة ففتح به على إمامه فسدت صلاة الكل، لأن التلقين من خارج، وفتح المراهق كالبالغ فيما ذكر."

(حرف الفاء، فتح على الإمام، ج: 32، ص: 16، ط: دار السلاسل الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں