بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائیداد پر نا جائز قبضہ اور ورثاء میں تقسیم


سوال

ہماری ایک پھوپھی تھی، جوکہ مطلقہ تھی اور اولاد نہیں تھی، ایک شخص تھا جس سے ہمارا تعلق تھا وہ پھوپھی لوگ  اور ہمارے پاس آتا جاتا تھا، پھوپھی کا انتقال ہوگیا تو اس شخص نے ہماری پھوپھی کے پنجاب اور کراچی والی جائیداد پر قبضہ کر لیا، اور پھوپھی نے ایک  بچی ایدھی سے لی ہوئی تھی، وہ بھی اس نے اپنے پاس رکھ لی، تین سال سے اس نے جائیداد پر قبضہ کیا ہوا ہے، اور کرایہ وصول کرتا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کا یہ قبضہ کرنا  شرعًا  کیسا ہے؟ اور پھوپھی کے ورثاء میں ایک بھائی اور و الدہ ہیں،  پو چھنا یہ ہے کہ ان کی جائیداد کا حق دار کون ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ پھوپھی کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد  پر  ان کے شرعی ورثاء کا حق ہے،سائل کی صراحت کے مطابق پھوپھی کے ورثاء میں والدہ اور بھائی موجود ہیں، تو  پھوپھی کی جائیداد  ان ہی کے درمیان تقسیم ہوگی، کسی اجنبی شخص کا محض جان پہچان کی بنیاد پر مرحومہ  کی جائیداد پر قبضہ کرلینا شرعا جائز نہیں ،اس پر لازم ہے کہ یہ جائیداد مرحوم کے ورثاء کے حوالہ کرے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔

صورتِ  مسئولہ میں سائل کی پھوپھی کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اس کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذکیا جائے، اس کے بعد  باقی  جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے تین  حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ والدہ کو  اور  باقی دو حصے بھائی کو ملیں گے۔

صورتِ  تقسیم یہ ہے:

میت:3

والدہبھائی
12

فیصد کے اعتبار سےسو (100) روپے میں سے (33.33) روپے شوہر کو، اور  (66.66) روپے بھائی کو ملیں گے۔  

حدیث شریف میں ہے:

"من أخذ شبرًا من الأرض ظلمًا فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

(ٲخرجہ البخاری (3/ 1168) ط: دار ابن کثیر)

ترجمہ:جس شخص نے  ظالمانہ طریقے سے  بالشت بھر زمین  قبضہ کی تو قیامت میں  ساتوں زمینوں  میں سے وہ (ناجائز قبضہ کردہ زمین) اس کےگلے میں طوق بناکر ڈال دیا جائے گا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں