بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آزاد کا لفظ بیوی کو ڈرانے کے لیے استعمال کرنا


سوال

گزشتہ دنوں کسی معمولی بات پر میری اور اہلیہ کی لڑائی ہوئی، ہماری اکثر ایسی لڑائی ہوتی ہے اور ہم رات کو ایک دوسرے کو منا کر سو جاتے ہیں۔ جس دن یہ لڑائی ہوئی اس دن غصے میں میں نے اہلیہ کو ان کا موبائل دیتے ہوئے کہا کہ ''جاؤ تم آزاد ہو، میں نے تمہیں آزاد کیا''، اگر تم چاہو تو میں وہ تین الفاظ بھی کہہ دوں؟ یہ کہنے کے بعد میں لیٹ گیا، اگرچہ یہ کہتے وقت میری نیت طلاق کی نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ وہ مجھے منا لے میں انہیں ڈراؤں گا تو وہ ناراضگی ختم کرکے مجھے منا لیں گی۔ بعد ازاں اہلیہ رونے لگی اور انہوں نے گوگل پر سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ کنایہ الفاظ ہوتے ہیں جن سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس سے قبل مجھے یا اہلیہ ہم دونوں کو ان الفاظ کے بارے میں بالکل نہیں معلوم تھا کہ ایسے کوئی الفاظ بھی ہیں جن کے کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے، اگر لاعلمی میں ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور نیت بھی چھوڑنے کی نہیں تھی تو کیا حکم ہے۔ ایک اور بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ماضی میں کبھی ایسے لفظ کا استعمال کیا ہے اس کی میں سو فی صد تصدیق نہیں کرتا میرا گمان ہے کہ شاید کبھی غصے میں کرلیے ہوں لیکن اہلیہ کہتی ہیں کہ آپ نے ماضی میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ الفاظ سےآپ کی اہلیہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، نکاح ٹوٹ گیاہے ،البتہ اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو عدت کے دوران اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوگواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ،دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں آئندہ آپ کے پاس  صر ف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ۔

باقی اگرماضی  میں مذکورہ استعمال کر لیے ہیں جس کے بعدآپ دونوں کے لیے  میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں تھااور ساتھ رہے ہیں تو  اس پر میاں بیوی صدق دل سے توبہ واستغفارکریں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

وقد مر ان الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفا الافيه من اي لغة كانت،وهذا في عرف زمانناكذالك فوجب اعتباره صريحا كما افتي المتاخرون في انت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلانية ۔

ردالمحتار علي الدر المختار ،كتاب الطلاق ،باب الصريح ،مطلب الصريح نوعان رجعي وبائن(3 /252)ط:سعيد

وفیه ایضا:

"وكونه التحق بالصريح للعرف لاينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم".

(3 /300، باب الکنایات، ط؛ سعید)

وفیه ایضا:

"( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً ··· فتح ( لا ) يلحق البائن (البائن)".

"(قوله: لايلحق البائن البائن ) المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح.  وقيد بقوله: الذي لايلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولاً أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال وحينئذٍ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم: والبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن ...  ومنها ما في الكافي للحاكم الشهيد الذي هو جمع كلام محمد في كتبه ظاهر الرواية حيث قال: وإذا طلقها تطليقةً بائنةً ثم قال لها في عدتها: أنت علي حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذلك وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شيء؛ لأنه صادق في قوله: هي علي حرام وهي مني بائن اهـ أي لأنه يمكن جعل الثاني خبراً عن الأول، وظاهر قوله: طلقها تطليقةً بائنةً أن المراد به الصريح البائن بقرينة مقابلته له بألفاظ الكناية، تأمل". 

( كتاب الطلاق، باب الكنايات ۳/ ۳٠۷ و ۳٠۸ ط:سعيد) 

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولايجري اللعان بينهما ولايجري التوارث ولايحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية". 

(3/187، فصل في حکم الطلاق البائن ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401101371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں