میاں بیوی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، شوہر نے غصے میں دو مرتبہ کہہ دیا کہ: (جاؤ! میں نے تمہیں فارغ کر دیا) اور حق مہر کی رقم25000 روپے ادا کر کے کہا کہ اپنے بھائیوں سے کہو سامان اٹھالیں۔
کیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں ہوئی؟اور اگر دوبارہ آپس میں ساتھ رہنا چاہیں تو اس کا کیا طریقہ ہے
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے یہ کہا تھا کہ "جاؤ ! میں نے تمہیں فارغ کر دیا" اور حق مہر کی رقم دے کر کہا کہ " اپنے بھائیوں سے کہوكہ سامان اٹھالیں " تو اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی ہے، اب دونوں کا نکاح ختم چکا ہے،البتہ عدت میں یا عدت کے بعد گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، لیکن اس نکاح کے بعد شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات : 1/ 374، ط: دار الفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144310100805
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن