بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جاؤ میں تمہیں چھوڑتا ہوں سے طلاق دینا


سوال

ایک عورت کے شوہر نے ڈیڑھ سال پہلے اس کو غصہ میں ڈرانے  کے لیے کہا تھا: جاؤ میں تمہیں چھوڑتا ہوں یا جاؤ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں( مکمل صحیح الفاظ ذہن میں نہیں ہے)۔  پھر دونوں ساتھ رہنے لگے،  اب دوبارہ کچھ دن قبل اس کے شوہر نے اسے کہا:  جاؤ تمہاری یہی  خواہش ہےنا  میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔  براہ کرم اس کا جواب دیں،  اس کا کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  " جاؤ " یہ کنایہ الفاظ میں سے ہے اگر اس سے طلاق کی نیت کی  جائے تو اس سے طلاق بائن  واقع ہو جاتی ہے  ، اگر صرف ڈرانے کے لیے بولا جائے طلاق کی نیت نہ ہو  تو اس سےکوئی  طلاق واقع نہیں ہو تی ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں شوہر نے   اگر غصہ میں ڈرانے کے لیے بیوی کو   کہا کہ  " جاؤ تمہیں  چھوڑتاہوں" تو ایسی صورت میں   اگر "جاؤ "کے لفظ سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو اس سے کوئی  طلاق واقع نهيں ہوئی    (جیساکہ بظاہر  سوال سے بھی یہ ہی  معلوم ہو رہا ہے کہ  صرف ڈرانے کے لیے کہا تھا طلاق کی  نيت نہیں  تھی ) البتہ اس کے بعد شوہر نے یہ جملہ ادا کیا کہ تمہیں چھوڑتا ہوں ،یا یہ جملہ ادا کیا کہ تمہیں طلاق دیتا ہوں ، تو ان دونوں میں سے کوئی ایک جملہ ادا کیا تھا تو   اس سے  ایک طلا ق رجعی واقع ہو گئی تھی،   اس کے بعداگر   عدت کے  اندر (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل  نہ ہو  اگر حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک)  ہی زبانی یا عملی   رجوع کر لیا تھا  تو اس صورت میں میاں بیوی  کا ایک دوسرے  کے ساتھ رہنا درست  تھا اور نکاح قائم رہا ،  پھر ڈیڑھ سال بعد شوہر نے کہا کہ میں " میں  تمہیں  طلاق دیتا ہوں" تو اس  سے دوسری طلاق بھی  واقع ہو گئی، بیوی اپنی عدت  ( مکمل تین  ماہواریاں  اگر حمل نہ ہو ، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک)  گزار کر   دوسری جگہ نکاح کر نے میں آزاد ہو گی،  عدت گزرنے کے بعد  اگر دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، اور عدت کے دوران شوہر رجوع کرنا چاہے تو رجوع بھی کرسکتا ہے۔ بہرصورت  آئندہ کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیا ر ہو گا۔ 

 فتاوی شامی میں ہے : 

" فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: " رهاكردم " أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت".

( کتاب الطلاق ، 3/ 299، سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة".

(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن،187/3، سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"ولو طلقها ثلاثا، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره فجاءت منه بولد ولا يعلمان بفساد النكاح فالنسب ثابت، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في التتارخانية ناقلا عن تجنيس الناصري."

(كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب،1 / 540،رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

"ولو قال : اذہبي فتزوجي، وقال لم أنو الطلاق لا یقع شيء؛ لأن معناہ أن أمکنک إلی قولہ ویؤید ما في الذخیرۃ اذہبي وتزوجي لایقع إلا بالنیۃ".

 (کتاب الطلاق،314/3، سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں