بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوانی میں شادی پر شیطان کا چیخ و پکار کرنا


سوال

کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ "جو شخص نوجوانی میں شادی کر لیتا ہے تو شیطان چیخ اٹھتا ہے کہ ہائے اس نے مجھ سے اپنا دین بچا لیا"؟

جواب

یہ روايت مسند ابو يعلي موصلي اور معجم اوسط كے حوالہ سے كئی  كتب ميں نقل كی گئی ہے، جس كے الفاظ یہ ہیں:

"أيما شاب تزوج في حداثة سنه إلا عج شيطانه: يا ويله، يا ويله، عصم مني دينه".

(مسند أبي يعلى الموصلي، مسند جابر، الرقم: 2041، 4: 37، دار المأمون للتراث، ط: الأولى، 1404ھ)

(المعجم الأوسط للطبراني، باب العين من اسمه عبد الله، الرقم: 4475، 4: 275، دار الحرمين ۔ القاهرة)

ترجمہ:

جو جوان بھی اپنے جوانی کے زمانہ میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو جاتا ہے، تو شیطان اے ہلاکت اے ہلاکت!  کہہ کر چیختاہے کہ اس نے مجھ سے اپنا دین محفوظ کر لیا۔ 

سند پر کلام:

یہ روایت جس سند سے نقل کی گئی ہے، اس کا  مدار" خالد بن اسماعیل المخزومی" پر ہے،جن پر سخت جرح كی گئی  ہے۔ چنانچہ ابن عدی رحمہ اللہ تعالی(365ھ)"الكامل في ضعفاء الرجال" میں فرماتے ہیں:

"یضع الحدیث على ثقات الناس۔"

یعنی یہ  ثقات پر  حدیثیں گڑھتے ہیں۔

(الكامل في ضعفاء الرجال، لابن عدي، رقم الراوي: 603، 3: 374، الرسالةالعالمية، ط: الأولى، 1433ھ)

ابن حبان رحمہ اللہ تعالی (354ھ)   "كتاب المجروحين" میں فرماتے ہیں:

"يروي عن عبيد الله بن عمر العجائب، لا يجوز الاحتجاج به بحال، ولا الرواية عنه إلا على سبيل الاعتبار".

( كتاب المجروحين من المحدثين، لابن حبان، (ت: حمدي عبد المجيد السلفي)، رقم الراوي: 300، 7: 343،  دار الصميعي للنشر والتوزيع، ط: الأولى، 1420ه)

ترجمہ:

خالد بن اسماعیل، عبید اللہ بن عمر سے عجائبات نقل کرتے ہیں، ان کی روایات  کسی صورت حجت نہیں بن سکتیں سوائے  اعتبار (یعنی متابع یا شاہد)کے ۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی( 597ھ) یہ روایت "العلل المتناهية في الأحاديث الواهية" میں لائے ہیں۔

(انظر: العلل المتناهية في الأحاديث الواهية، لابن الجوزي، كتاب النكاح، الرقم: 1003، 2: 121، إدارة العلوم الأثرية، فيصل آباد، باكستان، ط: الثانية، 1401ه)

علامہ ہيثمی رحمه الله تعالى(807ھ)" مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں فرماتے ہیں :

"وهو متروك۔"

 یہ متروک راوی ہیں۔

(مجمع الزوائد للہیثمی، كتاب النكاح، باب الحث على النكاح وما جاء في ذلك، الرقم: 7316، 4: 253، مكتبة القدسي، القاهرة، 1414ه)

حافظ ابن حجر رحمه الله تعالى(852ھ) "المطالب العالية" میں لکھتے  ہیں :

خالد بن اسماعيل متهم بالكذب ہيں،اور يہ روايت منكر ہے۔

(المطالب العالية، لابن حجر، باب الترغيب في النكاح، الرقم: 1644، 8: 283۔ 284، دار العاصمة، ط: الأولى،1419ھ)

خلاصہ:

محدثین اور ائمہ جرح وتعدیل کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت شدید ضعیف ہے، لہذا  اسے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

فقط واللہ اعلم۔

 


فتوی نمبر : 144108202022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں